اسلام آباد (ویب ڈیسک) وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی اقتصادی مشاورتی کونسل میں عالمی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات عاطف میاں کی نامزدگی کی وجہ سے سوشل میڈیا اور مذہبی تنظیموں میں ایک اضطراب پیدا ہو گیا تھا اور عاطف میاں کی کونسل میں نامزدگی پر حکومت کو
سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا جس کے بعد عاطف میاں کی نامزدگی واپس لے لی گئی۔ قبل ازیں کہا جا رہا تھا کہ عاطف میاں کی اقتصادی مشاورتی کونسل سے نامزدگی واپس لینے کا فیصلہ بے جا تنقید کے بعد کیا گیا تاہم اب حکومت کی جانب سے اقتصادی مشاورتی کونسل سے عاطف میاں کی نامزدگی واپس لینے کی اصل وجہ سامنے آ گئی ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق حکومت کو یہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ کچھ مذہبی گروپس نے 7 ستمبر کو اسلام آباد میں اُس وقت دھرنا دینے کا فیصلہ کیا جب چین اور سعودی عرب سے وفود نے پاکستان آنا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ وزارت مذہبی امور سمیت کئی وفاقی کابینہ ارکان نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی تجویز دی اورانہیں آگاہ کیا کہ اگر اس فیصلے پر نظر ثانی نہ کی گئی اور اگر مذہبی گروپس نے اسلام آباد میں دھرنا دے دیا تو حکومت کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کہا گیا کہ اگر اسلام آباد میں مذہبی گروپس نے دھرنا دے دیا تو حکومت کو چینی وزیر خارجہ اور سعودی وزیر خارجہ کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس معاملے پر بڑی اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت کے خلاف بیانات دئے جو اس فیصلے پر نظر ثانی اور عاطف میاں کی نامزدگی واپس لینے کی دوسری وجہ تھی، اپوزیشن جماعتوں نے دعویٰ کیا کہ حکومتی جماعت نے ان سے مشاورت کے بغیر بھی عاطف میاں کو کونسل کے رکن کے طور پر نامزد کر دیا تھا اور پھر بعد میں تنقید کا سامنا کرنے اور دباؤ میں آنے کے بعد بھی پارلیمنٹ یا پھر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر ہی جلد بازی میں عاطف میاں کی نامزدگی واپس لے لی گئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عاطف میاں کی کونسل سے نامزدگی واپس لینے کے بعد دو مزید ارکان نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے اقتصادی مشاورتی کونسل سے عاطف میاں کی نامزدگی واپس لینے کےبعد ڈاکٹر اعجاز خواجہ نے استعفیٰ دیا کہ جس کے بعد کمیٹی کے ایک اور رکن عمران رسول بھی مستعفی ہو گئے۔