لاہور (ویب ڈیسک) جب سے عمران خان کی حکومت قائم ہوئی ہے سہل پسندوں اور سرکاری وسائل سے ناجائز طور سے مستفید ہونے والوں میں ایک بے چینی کی لہر سی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی کچھ ایسا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ خصوصاً امریکہ کے پیٹ میں رہ رہ
نامور کالم نگار ناصف اعوان اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔کر ہلکا ہلکا مروڑ اٹھ رہا ہے اسی طرح بھارت کا معدہ بھی کچھ خراب نظر آ رہا ہے! بات صاف اور سیدھی ہے کہ اب پاکستان کو وہی کچھ کرنا ہے جو اس کے بہترین مفاد میں ہے۔اکہتر برس میں سوائے تلخیوں ، بربادیوں اور رسوائیوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا وجہ اس کی یہی ہے کہ ہم نے آشیر بادی سیاست کاری کو فروغ دیا۔ محض دوستی نبھانے کے لئے۔ اس دوران بہت سی خرائیوں نے بھی جنم لیا عوامی توجہ جو وطن عزیز کے لوگوں پر مرکوز ہونی چاہئے تھی وہ نہ ہو سکی۔ نتیجتاً برگمانیوں کا شکار ہو گئے اور ایک ایسا کلچر ابھر آیا جن میں آیا دھاپی اور قانون سے پہلوتہی واضح تھی یعنی جس کے منہ میں جو آیا اس نے کہہ ڈالا جو کرنا تھا کر دیا۔ اسی لئے ہی آج ملک معاشی اعتبار سے بدحال ہے سماجی ڈھانچہ اپنے اصل سے دھیرے دھیرے دور فاصلے پر جا کھڑا ہوا ہے اس کے خدوخال دھند لاتے جا رہے ہیں لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے اس کے لئے ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو دیانت دار اور
جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو اسے اپنی نہیں دوسروں کی فکر ہو۔ لہٰذا جب وہ لیڈر عمران خان کی شکل میں وزیر اعظم بن چکا ہے اور وہ یہ عزم ظاہر کر رہا ہے کہ اسے اس ملک اور اس کے لوگوں کی خدمت کرنی ہے۔ اسے بام عروج تک پہنچانا ہے تو اب تک جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں اور جو آشیربادیں دیتے رہے ہیں وہ ذرا مفطرب ہو گئے ہیں کہ وہ تو چاہتے تھے پاکستان ان کا محتاج رہے ان سے ہر مشورہ کرے اور وہ جنہیں لوٹ مار کرنے کی عادت پڑ گئی تھی اب احتساب کی گاڑی پٹڑی پر آجانے پر سخت پریشان ہیں کہ انہوں نے تو سوچا تھا وہ ۔۔۔ اور ان کی اولادیں تاحیات خزانے پر ہاتھ صاف کرتے رہیں گے۔۔۔ یہ کیا ہو گیا۔۔۔؟ تبدیلی آ گئی۔۔۔! پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین تبدیلی کو مذاق قرار دے رہے ہیں نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ دیکھتے ہیں کیسے عمران خان اپنے وعدوں پرپورا اترتا ہے اور لوگوں کے دل جیتتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں وغیرہ وغیرہ ! ایک حد تک تو وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ جب اربوں کھربوں لوٹ کر ملکی حالت دگرگوں کر دی جائے اور
آنے والے کے لئے پہاڑ ایسے مسائل کھڑے کر دیئے جائیں تو انہیں حل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ عمران خان تنہا نہیں عوام کی غالب اکثریت اس کے ساتھ ہے ملکی ادارے یہ طے کر چکے ہیں کہ ہر صورت آگے بڑھنا ہے اور عوام کے پرانے زخموں پر مرہم رکھنا ہے لہٰذا ہم عوام پرامید ہیں کہ ملک ترقی کرے گا پھلے پھولے گا اس کے بدمحواہوں کے مزموم عزائم کبھی بھی پورے نہ ہو سکیں گے۔ اگرچہ ان کی طرف سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آتے ہی مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے۔ بجلی، گیس ،اشیائے ضروریہ اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ کر کے لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔۔ ادھر ان کے ’’اتحادی‘‘ مغربی و مشرقی ممالک کو یہ خوف لاحق ہو گیا ہے کہ عمران خان اپنے ارادوں میں فولاد ہے اس نے خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں بتدریج لا کر روس چین اور ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط تر بنا لینا ہے جو ان کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ لہٰذا اسے کسی نہ کسی طرح ناکام بنایا جائے۔۔! اس کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ ایک عناصر میں چھپنے والی رپورٹ سے کہ عمران خان کی
جان کو سخت خطرہ ہے۔ ہمارے انٹیلی جنس اداروں نے افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کے آنے والے پیغامات کو ڈی کوڈ کیا ہے جس سے عالمی سازش کا پتا چلتا ہے اسی لئے ہی وزیر اعظم کو سڑک کے سفر سے احتیاط برتنے۔۔۔ کا کہا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی کھل کھیل سکے گا ہمارے شیر دل ادارے اسے کاونٹر کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا وہ دشمن کی خواہشوں کو ملیامیٹ کر دیں گے!!! بہرحال لگ یہ رہا ہے کہ ایک گروہ جو ملکی بھی ہے اور غیر ملکی بھی وطن عزیز کی خوشحالی اور استحکام نہیں چاہتا اسے مسائل کی آماجگاہ بنے رہنے کا خواہشمند ہے اسی میں اس کو اپنی بہتری نظر آتی ہے مگر جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ اب اس ریاست نے رکنانہیں بڑھنا ہے اسے گھمبیر تر مسائل سے نجات حاصل کرنا ہے مگر تاریکی میں رہنے والی چھچھوندریں نہیں نہیں کا سرہلا رہی ہیں انہیں یہ وارے میں نہیں کہ ان کے مزاج کے برعکس کوئی سرگرمی ہو۔ لہٰذا ان کی پوری کوشش ہے کہ ظلم کی آندھیاں یونہی چلتی رہیں زندگی بے کیف اور فضائیں اداس رہیں۔ یہ نہیں ہو گا وقت نے اپنی چال چل دی ہے۔
اکہتر برس سے مفلوک اکالوں کی سنی جانے والی ہے بلکہ سنی جا چکی ہے عمران خان نے ان کے دن پھیرنے کی ٹھان لی ہے اس کے لئے وہ اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرے گا۔ اسے فقط اس دھرتی کو معطر ہواؤں سے ہم کنار کرنا ہے اس میں سے ہاسے مسکراہٹیں اور قہقہے اُگا کر خزاں رسیدہ چہروں پر بہار لانی ہے لہٰذا اس نے چند دنوں میں اپنی سمت کا تعین کر لیا ہے جس پر وہ آنے والے مہینوں میں پوری طاقت سے رواں ہو گا۔! میں دیکھ رہا ہوں بدعنوانی کے مرتکب ہونے والے سیاسی بہروپیے ہوں یا بجلی گیس چوری کرنے والے چور وہ عمران ان پر تنقید کرنے میں پھدک پھدک جا رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت ایک برس سے زیادہ نہیں چل پائے گی انہیں خبر ہو کہ یہ حکومت اپنے پانچ برس کا دورانیہ مکمل کرے گی اور اگر اس نے لوگوں کے دماغوں پر اپنی کارکردگی اور حسن سلوک کی بناء پر قبضہ کر لیا تو اگلے پانچ کا مرحلہ بھی طے کر سکتی ہے۔۔ اور میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ عمران خان اور اس کے چند ساتھی تہیہ کر چکے ہیں
کہ انہیں عوام کی حکومت کر کے مثال قائم کرنی ہے لہٰذا وہ مقامی حکومتوں کو ۔۔۔۔ متعارف کرانے جا رہے ہیں عوام بھی اور وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عوام مسائل مقامی نوعیت کے یہی حکومتیں ختم کر سکتی ہیں گلی محلے کے ترقی بھی ان کے ہی ہاتھوں ممکن ہو سکتی ہے لہٰذا آنے والے چند ماہ میں نئے انتخابات کرا دیئے جائیں گے۔ اس سے ایک انقلاب آ ائے گا۔ مگر ہمارے سابق خادم اعلیٰ کے نورچشم جناب حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ وہ موجودہ حکومتوں کو توڑنے کے عمل کی مخالفت کریں گے اور احتجاج بھی ۔۔۔ واہ جی! کیا کہنے آپ نے تو اپنی پھوٹی کوڑی تک بھی نہیں دی انہیں اختیارات ہی نہیں دیئے گئے۔ وہ سارا دن بیٹھے جھنجھنا چھنکاتے پھرتے ہیں نام کے چیئرمین اور کونسلرز ہیں وہ کیا فائدہ جی۔۔ ان کا ۔۔ انہیں بحال رکھنے سے کیا حاصل محض ضد ہے ضد چلیے۔ احتجاج کر لینا جب وقت آگے گا مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ عوام دوبارہ استحصالی گروہ کے حصار میں نہیں جائیں گے۔ اب انہیں آزادی ملی ہے تو یہ برقراربھی رہے گی انہیں کچھ بنیادی حقوق بھی حاصل ہوں گے۔ یہی چیز استحصالی گروہ کی نیندیں اڑانے جا رہی ہے کہ انہوں نے تو عوام کو خوف و خطر کی فضا میں رکھ کر اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا وہ ان کی نگاہوں کا مرکز تھے اب تو یہ نظام انہیں ان سے بدظن کر دے گا۔ حرف آخر یہ کہ کوے جتنا چاہئیں کائیں کائیں کرتے رہیں کارواں یہ رکنے والا نہیں کیونکہ عمران خاننے پاکستان کے لوگوں کو ان کی منزل پر پہنچانے کا وعدہ کیا ہے لہٰذا جو روکیں گے راہوں میں رہ جائیں گے کہیں داستانوں میں ملیں گے ۔۔