اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے بیگم کلثوم نواز کی جمہوریت کیلئے خدمات کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جاوید ہاشمی نے مشرف دور کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ شریف برادران اور ان کے بچے اور دیگر افراد جیلوں میں تھے ایسے میں ہم نے فیصلہ کیاکہ اگر بیگم کلثوم نواز ہماری تحریک کیقیادت کریں تو یہ زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔ جاتی امرکے باہر سخت پہرہ لگایا گیا تھا اور ایسے میں بیگم تہمینہ دولتانہ میاں محمد شریف اور بیگم کلثوم نواز سے ملاقات کیلئے اندر جانے کیلئے ایک بھکارن کا روپ اختیار کر کے اندر گئیں اور ان کو اس بات پر قائل کیا کہ بیگم کلثوم نواز کو عملی سیاست میں آنا پڑیگا اور تحریک کی قیادت کرنا ہو گی۔ جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ میں اور بیگم کلثوم نواز یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے تھے، میرا تعلق نواز شریف کی فیملی سے بہت زیادہ تھا اور وہ ان کی بہو تھیں، کلثوم نواز بنیادی طور پر اچھی ماں، بیوی اور بہو تھیں جبکہ نواز شریف کی سیاسی معاونت کیلئے بھی موجود ہوتی تھیں،جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ میں اور بیگم کلثوم نواز یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے تھے، میرا تعلق نواز شریف کی فیملی سے بہت زیادہ تھا اور وہ ان کی بہو تھیں، کلثوم نواز بنیادی طور پر اچھی ماں، بیوی اور بہو تھیں جبکہ نواز شریف کی سیاسی معاونت کیلئے بھی موجود ہوتی تھیں۔جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ وہ ایک اچھی بیوی، اچھی ماں اور اچھی بہو تھیں اور ان کا کردار ایک گھریلو خاتون کا تھا ، ان کومطالعہ کا بہت شوق تھا.اور وہ اردو ادب سے بے پناہ شغف رکھتی تھیں اور اردو پر ان کی مہارت اور دسترس بے مثال تھی ہمیں بھی جب کبھی کوئی الفاظ اپنی تقریر میں لکھوانا ہوتا اور سمجھ نہ آرہی ہوتی تو ہم ان سے رابطہ کرتے تھے ، وہ بہت اچھی تقاریر لکھا کرتی تھیں۔جاوید ہاشمی نے بتایا کہ جب فوجی آمر پرویز مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تو اس وقت ساری شریف فیملی جیلوں میں تھی ایسے وقت میں ہم نے سوچا کہ اگر بیگم کلثوم نواز ہماری تحریک کی قیادت کریں تو یہ زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے اور ہم یہ سوچ لیکر نواز شریف اور شہباز شریف کے والد میاں محمد شریف کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ بیگم کلثوم نواز کو ہماری تحریککی ذمہ داری سونپیں جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ بیگم کلثوم نواز کے سامنے آتے ہی حالات تیزی سے بدلنے لگے، اس وقت تمام جماعتیں بکھری ہوئی تھیں اور ن لیگ سے ان کے اختلافات تھے جن میں جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی ، نوابزادہ نصر اللہ وغیرہ سر فہرست تھیں۔ بیگم کلثوم نواز نے نوابزادہ نصر اللہ سے ملاقات کی ، دیگر جماعتوں کو اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا سہرہبھی انہی کے سر تھا۔ اے آر ڈی کو منظم کرنے کے بعد انہوں نے ملک گیر تحریک شروع کی اور ملک کے طول و عرض میں گئیں۔ پرویز مشرف ان سے اس قدر تنگ آچکا تھا اور اس کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں کہ جب شریف خاندان کو سعودی عرب جلاوطن کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس نے پہلی شرط یہی رکھی تھی کہ شریف خاندان کے ساتھ بیگم کلثوم نواز بھی سعودی عرب جلاوطن ہونگی۔