لاہور (ویب ڈیسک )کبھی کبھار کچھ سروے ہمیں بتاتے ہیں کہ خوش رہنے میں پہلے، دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں نمبر وغیرہ پر کون سی قوم ہے۔ اس قسم کے کسی سروے میں میں نے پاکستانیوں کو کبھی 15ویں، 20ویں نمبر پر بھی نہیں دیکھا جس کی ایک وجہ تو شاید وہ صورتحال ہو جو اس شعر میں دکھائی دیتی ہے۔
نامور کالم نگار حسن نثار اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئےروپڑا وہ آپ، مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئےخوشی کی بھی شاید سنو بالنگ یا چین ری ایکشن ہوتا ہے، لاکھ کہتے ہیں کہ خوشی ایک’’کیفیت‘‘ یا’’مائند سیٹ‘‘ ہے تو سب خلا میں تو جنم نہیں لیتے۔ مخصوص حالات، وجوہات اور عوامل ہی مخصوص کیفیات اور مائنڈ سیٹ کو جنم دیتے ہیں۔ خوشی کا بےپناہ انحصار اس بات پر بھی ہے کہ آپ کس قسم کے ماحول اور معاشرہ میں ز ندہ ہیں اور جن کے درمیان زندہ ہیں وہ کس قسم کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ مسکراہٹ چھوت کے مرض کی مانند ہوتی ہے تو شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں کیونکہ عموماً یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آپ کسی کو دیکھ کر مسکرائیں اور مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے نہ آئے۔خوشی کو کئی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ہو جس میں خوشی کوDefineکرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو مثلاً ہسپانوی کہتے ہیں’’خوشی اس چیز کا نام ہے کہ تم ہو کون اور تمہارے پاس ہے کیا‘‘پنجابی میں خوشی کی قدر و قیمت یوں بیان کی جاتی ہے’’جے توں خش نئیں تے تیرے پلے کش نئیں‘‘یعنی اگر انسان کے پاس سب کچھ ہو لیکن خوشی نہ ہو تو وہ سب کچھ بیکار ہےاطالوی کہتے ہیں’’خوشی منزل نہیں منزل تک پہنچنے کے راستے پر چلنے کے طریقہ کار کا نام ہے‘‘اک فارسی مصرعہ کا ترجمہ ہے’’خوش رہنے کے لئے ضروری ہے کہ
کیچڑ کی بجائے کہکشاں پر نظر رکھو‘‘صوفیا کہتے ہیں کہ’’خوشی کو یقینی اور دائمی بنانا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو کسی عظیم تر مقصد کے لئے وقف کردو۔جتنا عظیم مقصد ہوگا اتنی ہی عظیم خوشی نصیب ہوگی‘‘قدیم ریڈ انڈینز کہا کرتے تھے’’خوشی ان پھولوں کا نام ہے جو تمہاری پہنچ میں ہوں‘‘Benjamin Franklinنے کہا تھا”The US costitution does not guarantee happinessʼ only the PURSUIT of it. You have to catch up to it yourself”کسی فرانسیسی دانشور کا قول ہے’’وائلن بجانے کی مشق کے دوران کے احساسات کا دوسرا نام خوشی ہے‘‘نام بھول رہا ہوں لیکن کسی بڑے آدمی کا کیا غضب کا جملہ ہے کہ’’خوشی اس بےپناہ لگاتار مصروفیت کا نام ہے جس کے دوران آپ کا دھیان ہی اس طرف نہ جائے کہ آپ خوش ہیں یا غمگین‘‘کچھ کے نزدیک خوشی پکتی ہوئی روٹی کا نام ہے۔ یہاں ایک اور محاورہ یاد آیا کہ’’روٹی کی پٹ پٹ بہرا بھی سن لیتا ہے‘‘پرتگالی کہتے ہیں’’خوشی دو قسم کی ہوتی ہے، اول مہمان کے تشریف لانے کی اور دوم مہمان کے تشریف لے جانے کی‘‘Charles Wileyکا مشورہ ہے’’دن میں ایک انسان کا دل خوش کردو تو یقین مانو 40سال کی عمر تک تم14000خوشیوں کا خزانہ پالو گے‘‘’’کوئی اچھا کرے تو دل کھول کر اس کی اچھائی کرو کہ اس طرح ایک ہی وقت میں تم دو لوگوں کو خوش کرلو گے‘‘’’کل کی فکر کل کے مسئلہ کا حل نہیں لیکن تمہارا آج ضرور ناخوش گزرے گا‘‘’’خوشی اک بہت چھوٹی سی چیز ہے جس کے پہلو میں بہت بڑی ردی کی ٹوکری پڑی ہوتی ہے‘‘اور تقریباً آخر پر”Happiness is the inner joy that can be sought and caught but never taught or bought”.ایک بات جو کبھی نہ بھولنے والی ہے کہ جس شے کو”Inner joy”کہا گیا ہے، ان لوگوں کو کبھی نصیب نہیں ہوتی جو حسد یا غیبت جیسے موذی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔