لاہور (ویب ڈیسک)دورانِ تربیت ایک مرتبہ ان کے کلاس انچارج نے پوری کلاس سے سبق یاد کر کے لانے کو کہا۔دوسرے دن جب پہلے ہی لڑکے سے سوال کیا گیا تو پتہ چلا ہ اسے سبق یاد ہے مگر وہ ہوم ورک کر کے نہیں لایا۔بھٹی، کلاس انچارج نے راجہ عزیز بھٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “
تمام لڑکوں کے نام لکھو جو آج ہوم ورک کر کے نہیں لائے”یس سر”میجر صاحب نے جواب میں کہا اورجلد ہی ایک فہرست استاد کوپیش کی۔یہ کیا؟ استاد نے فہرست میں سب سے اوپر خود راجہ عزیز بھٹی کا نام لکھا دیکھ کر حیرت سے کہا۔تم نے اپنا نام سب سے اوپر کیوں لکھا؟ اس لئے سر۔کہ میں بھی ہوم ورک کر کے نہیں لایا۔مگر تم اپنا نام نہ بھی لکھتے تو کیا حرج تھا؟” استاد نے کہا۔نو سر جب میں کام کر کے نہیں لایا تو ایمانداری کا تقاضہ ہے کہ اپنا نام بھی لکھو اور سب سے اوپر لکھوں انہوں نے ادب سے جواب دیا۔شاباش بھٹی ،استاد کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک آئی میری بات یاد رکھنا۔ تم ایک دن کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دو گے۔ اللہ نے تمہیں ایسی عادات یونہی ودیعت نہیں کیں۔ وہ تم سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے۔راجہ عزیز بھٹی مسکرا کر رہ گئے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کے استاد نے کتنی بڑی سچائی کی خوشبو سونگھ لی تھی۔بہن بھائیوں میںآپکا نمبر چوتھا تھا۔ آپ سے بڑے دو بھائی اورایک بہن تھی۔والدین نے ان کا نام عزیز احمد رکھا مگر آپکے خوبصورت نقوش نے ان کو “راجہ” کا ایسا نام دے دیا ،
جو آج بھی زبان زد عام ہے شہزادوں جیسی صورت وشخصیت کے حامل عزیز بھٹی کو جس نے بھی پکارا، راجہ یا بھٹی صاحب کہہ کر پکارا۔ہانگ کانگ کے جزیرے پر ایک چینی نجومی نے ایک بار راجہ عزیز بھٹی کو دیکھا تو بے اختیار پیشن گوئی کی۔یہ بچہ زندگی میں بے حد نام کمائے گا۔ جب یہ دنیا سے رخصت ہو گا تو اس کی شہرت زبان زدِ عام ہو گی۔آپ زمانہ طالبِ علمی میں ہی سے کرکٹ، ہاکی، ٹینس اور فٹ بال کے بہترین کھلاڑی تھے۔ ان کھیلوں سے ان کی شخصیت میں ڈسپلن پیدا ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم کا اختتام اگست 1946 میں ہوا۔حالات کو دیکھتے ہوئے میجر صاحب کے والدین نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا اور بچوں کو ساتھ لے کرہانگ کانگ سے پاکستان چلے آئے۔ اِن کا آبائی گاؤں لادیاں تھا جو ضلع گجرات میں واقع ہے۔یہ گاؤں راجہ عزیز بھٹی کے بزرگوں کی آماجگاہ ہے۔لادیاں میں رہائش پذیر ہوئے ابھی چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ آپکو ایک حادثہ پیش آیا۔ ہوا یہ کہ میجر صاحب اپنے بھائی نذیر احمد کے ساتھ سائیکل پر کہیں جا رہے تھے کہ ایک ہندو لڑکا سائیکل کے سامنے آ گیا۔رُکتے رُکتے بھی سائیکل اس سے جا ٹکرائی۔لڑکا شدید زخمی ہو گیا۔
دونوں بھائیوں نے لڑکے کو اٹھایا اور دولت نگر ہاسپٹل میں لائے ڈاکٹر نے لڑکے کی مرہم پٹی کی اور ایک دوائی لکھ کر دی ۔یہ دوا کہاں سے مل سکے گی ڈاکٹر صاحب؟راجہ عزیز بھٹی نے پوچھا۔لالہ موسٰی(شہر کا نام ) سے ڈاکٹر نے جواب دیا ۔لالہ موسٰی سے؟نذیر احمد نے راجہ عزیز بھٹی کی جانب دیکھا۔ وہ تو چودہ پندرہ میل دور ہے!جانا تو پڑے گا بھائی جان۔یہ اس لڑکے کی زندگی کا مسئلہ ہے۔”راجہ عزیز بھٹی نے بیڈ پر پٹیوں میں جکڑے لڑکے کی جانب دیکھ کر کہا۔چنانچہ سخت گرمی،ٹوٹی پھوٹی سٹرک اور پندرہ میل کے فاصلے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دونوں بھائی سائیکل پر لالہ موسٰی پہنچے اور دوا لے کر جب ہاسپٹل واپس پہنچے تو ڈاکٹر ان کی انسانی ہمدردی سے بے حد متاثر ہوا۔تم دونوں نے ایک غیر مسلم زخمی کی اس طرح مدد کر کے بہترین مثال قائم کی ہے۔یہ ہمارا فرض تھا ڈاکٹر صاحب۔راجہ عزیز بھٹی نے جواب دیا اور لڑکے سے مل کر ہاسپٹل سے روانہ ہو گئے۔ 1947 میںآپ کی شادی اپنے ہی گاؤں میں صوبیدار اکرام الدین بھٹی کی صاحب زادی محترمہ زرینہ بیگم سے ہو گئی۔شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد میجر صاحب اور ان کے بھائی نذیر احمد اور سردار محمد انڈین ائیرفورس میں بھرتی ہو گئے۔اِسی سال اگست میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا اور ان کے متعلقہ دستے راولپنڈی آ گئے۔ یہاں آتے ہی میجر صاحب نے پاک آرمی میں کمیشن کے لئے درخواست دے دی جو خوش قسمت سے منظور ہو گئی اورآپ پاک آرمی میں آگئے پاکستان بننے کے بعد ایبٹ آباد کے قریب کاکول میں ملٹری اکیڈمی میں فوجی ٹریننگ کی کلاسز کا اجراء ہوا۔ واضح رہے کہ بری فوج کے عظیم سپوت اور جنگ ستمبر 1965ءکے ہیرو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کا یوم شہادت آج 12ستمبر بروز بدھ کو قومی جوش و جذبے سے منایا جائے گا۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے 12ستمبر 1965 ءکو پاک بھارت جنگ کے دوران لاہور کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا ۔ا نہیں پاکستان کی مسلح افواج کے سب سے بڑے اعزاز نشان حید ر سے نوازا گیا ۔ آج شہید کی آخری آرام گاہ پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی اورفاتحہ خوانی کی جائے گی ۔ اس موقع پر مساجد میں قرآن خوانی کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔