تحریر: کشور سجاد
دوسری عالم گیر جنگ کے اختتام پر سابق سوویت یونین اور امریکا کے درمیان شروع ہونیوالی سرد جنگ نے دنیا کو بالکل برلن شہر کی طرح دو حصوں میں تقسیم کردیا، کمزور ملکوں کی بقاءکے لئے لازم ٹھہرا کہوہ دونوں میں سے کسی ایک عالمی طاقت کو اپنا آقا تسلیم کریں ، امریکا اپنی فطرت کے عین مطابق دہشت پھیلا کر دنیا کو غلام بنانے کیلئے دو بلاجواز ایٹمی حملوں کے ذریعے لاکھوں بیگناہ جاپانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنی امن پروری کا ڈھنڈورا پیٹ رہاتھا ، حالانکہ جاپان نے پہلے ہی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی تھی جبکہ سوویت یونین نے اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دنیا کو کارل مارکس کے وضع کردہ معاشی نظام یعنی کمیون ازم کی برکتوں سے سرفرار کرنا چاہا، درحقیقت اس لڑائی کا تعلق مذہب سے کسی طور تھا ہی نہیں بلکہ اس کے پس پردہ دنیا پر سیاسی غلبے کی خواہش کارفرما تھی جس کا مقصد معاشی مفادات کا حصول تھا، وسط ایشیا اور مشرقی یورپ پر نصف صدی سے زائد عرصے تک سوویت تسلط کے باوجود اسلام ختم ہوا اور نہ ہی عیسائیت ناپید ہوئی بلکہ خود روس میں بھی مذہب سے وابستگی برقرار رہی، مغرب اور امریکا نے پروپیگنڈہ کے زور پر اسے کفر اور مذاہب کی جنگ بنا دیا، یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جس نے نوزائیدہ پاکستان کو شروع دن سے امریکی جال میں پھنسا دیا جس سے نکلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ماضی میں ریاستی اشرافیہ نے کبھی کی ہی نہیں،اُلٹا امریکی آلہ کار بن کر سابق سوویت یونین کی فوجی جاسوسی کیلئے بڈھ بیر ایئربیس اس کے حوالے کردیا، 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں امریکی بدعہدی کامزہ چکھنے کے بعد ڈکٹیٹر اور خودساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ نامی کتاب لکھوانا پڑی۔پاک روس تعلقات کی موجودہ سطح اور دونوں طرف موجود قریبی تعاون بڑھانے کی خواہش بلاشبہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سمیت عالمی امن و استحکام کیلئے حوصلہ افزاءہوسکتی ہے،صدر ولادی میرپیوٹن کی قیادت میں روس نے ماضی کے برعکس عالمی معاملات میں زیادہ منصفانہ اور جاندار کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرادیا ہے کہ وہ امریکی جنگی جنون کے آگے بھی بند باندھا جاسکتا ہے۔
چندسال پہلے سوکی اولمپکس اور رواں سال فٹبال ورلڈ کپ کا انعقاد ایک صلح جو فطرت اور صحت مندانہ سوچ کے حامل روس کو ایشیا میں ترقی پذیر اور غریب ممالک کے لئے یقیناً زیادہ قابل قبول بناتا ہے ، پاکستان کیلئے اس کی اہمیت دوسروں سے کہیں زیادہ ہے لیکن ڈکٹیٹروں کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہ آسکی، مثال کے طور پر جنگ ستمبر میں پاکستانی قوم نے جس بے خوفی سے فوجی جوانوں کا ساتھ دیکر بزدل بھارت کے دانت کھٹے کئے اس کابدلہ چکانے کے لئے بھارت نے مشرقی پاکستان میں پراکسی وار شروع کی، لوگوں کے ذہن میں نفرت کے بیج بوئے، انہیں اسلحہ اور تربیت فراہم کی، آخر میں برہنہ فوجی جارحیت کے ذریعے ڈھاکہ سمیت مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا، اس وقت ہمارے ساتھ ساتویں بحری بیڑے کے نام پر بے وفائی امریکا نے کی یا اس کا ذمہ دار بھی روس ہی کو ٹھہرایا جائے جس کے ساتھ ہمارے غیر جمہوری حکمران امریکا کو خوش کرنے کیلئے مسلسل دشمنی کی تاریخ رقم کر رہے تھے؟مناسب ہوگا کہ یہ غلط فہمی بھی دور کرلی جائے کہ اگر تلہ سازش کیس میں شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار اور رہا کرنیوالی یحیحیٰ آمریت تھی جو مشرقی پاکستان میں بھارتی سازش کا توڑ نہ کرسکی، شیخ مجیب پر غداری کا سنگین الزام تھا، موت کی سزا اس کا مقدر ہونی چاہئے تھی لیکن اسے چھوڑ دیا گیا، اس غلطی، کوتاہی اور ملک دشمنی پر بھی تو اظہار ندامت ہونا چاہئے یا نہیں؟ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے جمہوری دور حکومت میں روس کے ساتھ دوستی اور تعاون پر مبنی تاریخی تعلقات استوار کئے، پاکستان اسٹیل ملز اور گدوتھرمل پاور اسٹیشن سمیت کئی شاندار منصوبے روس کی مدد سے مکمل کئے گئے، غیرجانبدار ممالک کی تحریک یا تھرڈ ورلڈ کانعرہ لگانے پر روس نے تو کوئی اعتراض نہ کیا لیکن امریکا کو اس سے شدید تکلیف پہنچی، بعدازاں امریکی مدد کے بغیر پچاس ہزار سول اور پینتالیس ہزار فوجی جنگی قیدیوں کی شملہ معاہدے کے ذریعے بھارت کی قید سے رہائی نے منتخب وزیراعظم بھٹو کو ملک میں پہلے سے زیادہ مقبول بنا دیا، چین کے ساتھ تعلقات میں زیادہ گرم جوشی اور روسی کو زیادہ اہمیت دینا بھی امریکا کو پسند نہ آیا اور 1974ءمیں بھارتی ایٹمی دھماکے کے جواب میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے اعلان پر امریکی اور بدنام زمانہ امریکی سی آئی اے نے بھٹو کو نشانے پر رکھ لیا،بعد میں تواتر سے پیش آنیوالے واقعات نے ثابت کردیا کہ نو ستاروں کا مجموعہ،اجتماعی تحریک اور جنرل ضیاءکا جمہوریت پر شب خون کوئی اتفاق نہ تھا بلکہ یہ ہنری کسنجر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی امریکی سازش تھی،ہمسایہ ملک افغانستان میں سردار داﺅد کی ہوس اقتدار نے وہاں اندرونی عدم استحکام کی بنیاد رکھی جس کے نتیجے میں بعدازاں سابق سوویت یونین کو مداخلت کا موقع مل گیا،فرض کیا بھٹو اس وقت اقتدار میں ہوتے تو کیا وہ پاکستان کو امریکا کیلئے کرائے کا ٹٹو بننے دیتے؟ جواب نفی میں ہے لیکن منتخب وزیراعظم کو اپنی طفیلی عدلیہ کے ذریعے قتل کرکے امریکا کو خوش کرنیوالے ڈکٹیٹر جنرل ضیاءافغانستان میں امریکا کی جنگ لڑنے پر تیار ہوگئے۔
پہلے اسے گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش سے جوڑا گیا، پھر اسے کفرواسلام کی جنگ کا نام دیکر قوم کی برین واشنگ کی گئی، بعدازاں ڈالروں کے بدلے ملک و قوم کو مستقل بدامنی اور دہشت گردی کے جہنم میں دھکیلنے والے جنرل ضیاءپاکستانی معاشرے کو منافقت اور ریاکاری کا تحفہ دیکر اپنے امریکی آقاﺅں سمیت فضاہی جل کر راکھ ہوگئے، ان کےساتھ ایک ہی طیارے میں سفر کرنیوالے دیگر ہم وطنوں کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
نائن الیون کے مشکوک واقعے کے نتیجے میںامریکا 2001ءمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان پر حملہ آور ہوا تو پاکستان پر بدقسمتی سے پھر ایک ڈکٹیٹر جنرل پرویزمشرف کی حکومت تھی، ملک کو ایک بار پھر فرنٹ لائن سٹیٹ بنا دیاگیا، کم و بیش ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے معاشی اور وردی بغیر وردی ساٹھ ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بھی پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ قرار دیاجا رہا ہے، امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو ایک سانس میں ہمارے نئے منتخب وزیراعظم عمران خان کو کامیابی پر مبارکباد پیش اور نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے وہی پرانا ڈومور کا راگ الاپ کر زخموں پر نمک بھی چھڑک رہاہے، امریکی محکمہ خارجہ پاکستان کے احتجاج پر بھی گفتگو کے متن کو ریڈ آﺅٹ کرنے پر تیار نہیں، ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کا امریکا سمیت تمام ممالک سے برابری کی سطح پر تعلقات کا عزم یقیناً قومی وقار اور خود مختاری کے تحفظ کاضامن بنے گا۔
آثار یہی ہیں کہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی آئے گی، امریکی مفادات کی تکمیل کاذریعہ بنے رہ کر ہم نے بہت کچھ کھودیا، وقت کا تقاضا یہ ہے کہ موجودہ حکومت روس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرے، پچھلے چند برسوں میں اسلام آباد اور ماسکو نے ماضی کی تلخیاں بھلا کر ایک دوسرے کو نئے انداز سے دیکھنا شروع کیا ہے جس میں اپنائیت ہے، بلاشبہ روس ہی ہمارا فطری حلیف ہوسکتا ہے، امریکا نہیں،
ترکی ، آذربائیجان، قازقستان اور ایران بھی روس ہی کو قابل بھروسہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ وہ ایشیا میں ہے، ہمسایہ ہے، باہمی احترام پر یقین رکھتاہے، پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے ، ڈیموں کی تعمیر میں روس سے تعاون کاحصول زیادہ مشکل نہیں، اچھی بات یہ ہے کہ ہماری عسکری قیادت کو بھی امریکا کے ساتھ طویل رومانس میں آٹے دال کا بھاﺅ معلوم ہوچکا ہے، لہٰذا ترجیحات میں روس کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون پر مبنی تعلقات کو نمایاں مقام دیاجائے تو امریکی بلیک میلنگ سے نجات خارجہ از امکان نہیں۔