لاہور (ویب ڈیسک) پاکستانی حکومت نے اپنے روايتی اتحادی اور دوست ملک چين کی حکومت پر زور ديا ہے کہ ايغور نسل کی مسلم اقليت پر دباؤ کم کيا جائے۔ اس معاملے پر اب تک حکومت کی خاموشی پر لوگ سوشل ميڈيا پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہيں۔
پاکستان کی جانب سے چين سے اپيل کی گئی ہے کہ سنکيانگ خطے ميں مقيد ايغور نسل کے لاکھوں مسلمانوں پر دباؤ کم کيا جائے۔ پاکستان وزير برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے اس سلسلے ميں چينی سفير ياؤ شنگ سے اسی ہفتے اسلام آباد ميں ملاقات کی۔ اس ملاقات ميں قادری نے سنکيانگ ميں حراستی مراکز ميں موجود لاکھوں مسلمانوں کے بارے ميں دريافت کيا، جن کے بارے ميں انسانی حقوق کے ليے سرگرم تنظيموں کا دعویٰ ہے کہ ان کے حقوق کی خلاف ورزياں جاری ہيں۔ قادری نے چينی سفير سے کہا کہ ايسا دباؤ متاثرہ افراد کو انتہا پسندانہ سوچ کی جانب دھکيل سکتا ہے۔ پاکستانی وزير نے زور ديا کہ چينی حکومت اس معاملے کا کوئی جامع حل نکالے۔ ماہرين کے خيال ميں موجودہ صورتحال ميں پاکستان کی جانب سے يہ اقدام قابل ديد بھی ہے اور اہم بھی۔ چين اور پاکستان انتہائی دوستانہ تعلقات کے حامل ہيں اور خطے ميں امريکی اثر و رسوخ کے تناظر ميں يہ دوستی اور بھی اہم ہوتی جا رہی ہے۔ واشنگٹن اور پاکستان کے تعلقات جيسے جيسے بگڑتے جا رہے ہيں، اسلام آباد حکومت کا جھکاؤ اپنے روايتی اتحادی ملک چين کی جانب اور بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سی پيک کے حوالے سے بھی حال ہی ميں چند شکوک وشبہات ابھرے تھے، جنہيں دور کرنے کے ليے دونوں ممالک کی حکومتيں سرگرم ہيں۔ ہيومن رائٹس واچ کے مطابق چين کے سنکيانگ صوبے ميں ترک نسل کے ايغور مسلمانوں کو جبری طور پر حراست ميں رکھا جا رہا ہے۔ ايک اندازے کے مطابق ايسے افراد کی تعداد ايک ملين سے زائد ہے۔ چینی حکام کے مطابق ان کيمپوں ميں اقليتی گروپوں کے ارکان کی ’تعليم کے ذريعے اصلاح‘ کی جارہی ہے۔ عالمی برادری نے چين ميں مسلم اقليتی گروہوں کے ساتھ اس رويے کی مذمت کی ہے۔