اسلام آباد(ویب ڈیسک) لڑکی کے نام کی تبدیلی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ایف آئی اے نے لڑکی کے والد کی مالی حیثیت سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے لڑکی کے نام کی تبدیلی سے متعلق درخواست کی سماعت کی،
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے رپورٹ عدالت میں جمع کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی کے والد کے پاس کچھ بھی نہیں،لڑکی کاوالد 20 سے 25 ہزارروپے ماہانہ کماتاہے اور 10 ہزارروپے گھر کا کرایہ ہے۔ شاہد ایوب کی دوسری بیوی کرسچین سے مسلمان ہوئی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ولدیت کے معاملے میں شرعی اور قانونی نقطہ ہے،بیٹی والد کا نام ولدیت کے کالم سے نکلوانا چاہتی ہے، عدالتی معاون سے معاملے پر معاونت لیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن آپ پر عدالت زیادہ بوجھ تو نہیں ڈال رہی؟،اس پر بشیر میمن نے کہا کہ عدالت کی ذمے داریاں میرے لیے باعث عزت ہیں،عدالت نے ولدیت کے کالم میں والد کا نام نکالنے سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق ‘میں انھیں والد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہوں ۔۔۔ وہ جس نے کبھی میرا نام نہیں لیا۔ ان کے خاندان کے شجرے میں میرا نام ہی موجود نہیں ۔۔۔ لوگ پوچھتے ہیں باپ کہاں ہے؟ کیا یہی تمھاری ماں ہے۔ میں نے سماجی سطح پر ذلت سہی ہے۔’ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر
درخواست میں اپنا نام ’تطہیر بنت پاکستان‘ لکھا ہے اور یہی دراصل ان کا مطالبہ بھی ہے کہ وہ 22 برس کی عمر میں اپنے دستاویزات میں ولدیت کے خانے سے اپنے والد شاہد ایوب کا نام ہٹا دینا چاہتی ہیں۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں اس کیس کی دوسری سماعت کے موقع پر تین رکنی بینچ کے روبرو اپنے والدین کے ہمراہ کھڑی تطہیر فاطمہ نے روتے ہوئے یہی مطالبہ پھر سے دہرایا۔ یہ ایک فیملی کورٹ کا منظر دکھائی دے رہا تھا جس میں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ شاہد ایوب کے بقول جب سنہ 1998 میں ان کی فہمیدہ سے علیحدگی ہوئی تھی تو پشاور میں خاندان کے جرگے نے ان سے کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔ بعد میں ایک آدھ بار کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ انھوں نے عدالت کی سرزنش پر کہ کیا آپ نے کبھی کسی ریاستی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ ملنے کا سبب بنے، بتایا ’جی میری کوتاہی ہے میں نے ایسا کبھی نہیں کیا‘۔ شاہد ایوب کا موقف تھا کہ وہ 2002 میں بیٹی سے ملے تھے اور اسے کھلونے بھی لے کر دیے تھے۔ ’
نادرا کے پاس اپنی بیٹی تطہیر کا نام لکھوانے کی کوشش کی تھی لیکن نادرا نے ان کا نام بلاک کر دیا۔‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا ’ہمیں سختی پر مجبور نہ کریں‘۔ عدالت نے یہ تو کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تطہیر کفالت کا حق نہیں دیا گیا ان تمام برسوں کا ازالہ کیا جائے اور ابھی اس کیس پر اور بھی سماعت ہو گی۔ تاہم عدالت نے ولدیت کے خانے سے والد کا نام نکالے جانے کے تطہیر کے مطالبے کے حوالے سے کہا: ‘یہ ان کی شناخت ہے ۔۔۔ یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ۔۔۔ کالج سکول، یونیورسٹی کے ریکارڈ میں کوئی کمی بیشی ہے تو اسے پورا کیا جائے گا۔ ذہن پر جو اثر ہوا اسے ڈیلیٹ نہیں کیا جاسکتا۔’ عدالت نے وہاں موجود ایف آئی اے حکام سے کہا کہ وہ تطہیر کے والد کی مالی حیثیت اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ بعد میں متعلقہ حکام نے فریقین سے الگ الگ ملاقات بھی کی۔ بی بی سی سے گفتگو میں تطہیر نے بتایا کہ ‘آج میں جس مقام پر ہوں اپنی ماں کی وجہ سے ہوں۔ میں نے آج تک اپنے والد کو نہیں دیکھا تھا اور پہلی بار آج عدالت میں بھی میں نے ان کی جانب
دیکھنا نہیں چاہا۔ یہ شاید پہلی اور آخری ملاقات ہو۔’ تطہیر اور ان کی والدہ کو شکایت ہے کہ جب میٹرک میں انھیں فارم ب بنانے کی ضرورت تھی تو والد نے انکار کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میٹرک میں 2009 میں والد کو خود فون کیا تو والد نے صاف انکار کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ ’پہلے اپنی والدہ کے خلاف تھانے میں درخواست دو کہ وہ اچھی خاتون نہیں تو میں تمھارے لیے سوچوں گا‘۔ تطہیر اب گریجوئیشن کر چکی ہیں۔ وہ نیشنل سطح پر سپورٹس میں بھی حصہ لیتی رہی ہیں جن میں جوڈو کراٹے اور تیراکی شامل ہیں لیکن شناختی دستاویزات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ پائیں، اور اب اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جانا چاہتی ہیں لیکن ان کے پاس موجود شناختی کارڈ پر ان کے والد کے گھرانہ نمبر نہ ہونے کے باعث ان کا پاسپورٹ نہیں بن پا رہا۔ پاکستان کے قانون میں یتیم بچوں اور والد کے لاپتہ ہونے والوں کی شناختی دستاویزات کے لیے تو قانون موجود ہے لیکن ایسے بچے جن کے والد حیات ہوں اور تعاون ناپید ان کے لیے قانون خاموش ہے۔ تطہیر کہتی ہیں والد کا نام میری دستاویزات میں تو موجود ہے
لیکن والد کا میری زندگی میں کوئی کردار نہیں۔ ‘معلوم نہیں ماموں نے میرا شناختی کارڈ کیسے بنوایا تھا لیکن نادرا کے مطابق میرے والد نے تو اپنی اولادوں میں میرا نام نہیں لکھوایا، شجرے میں میرا نام نہیں۔‘ قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں اور عدالت نے شاید اسی بنا پر تطہیر کے مسائل کا تدارک موجودہ قانون کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بھی تسلیم کیا کہ برسوں تک جو ذہنی اذیت اس بچی نے برداشت کی اسے ختم نہیں جا سکتا۔ عدالت نے ان کے والد کو کہا کہ پچھلے تمام برسوں میں بھی کفالت کے پیسے ادا نہ کرنے کا ازالہ کریں۔ تطہیر کے والد نے میڈیا سے گفتگو سے معذرت کی اور کہا کہ یہ میرے لیے ممکن نہیں۔ تطہیر اور ان کی والدہ عدالت کے رویے سے تو مطمئن ہیں لیکن والد کا نام ہٹ نہیں سکتا نے انھیں کچھ مایوس ضرور کیا ہے۔ ‘جس پٹیشن کے لیے میں آئی تھی کہ مجھے میری زندگی میں یہ نام نہیں چاہیے لیکن وہ کس طرح ڈال رہے ہیں اس نام کو (والد کے نام)۔ ہمیں یہ آزادی دی جائے کہ ہم جس کا نام لکھنا چاہتے ہیں یا جس کے ہمارے پاس ڈاکومینٹس ہیں جو ہم مہیا کر سکتے ہیں ہم اس کا نام لکھ سکیں۔’ تطہیر نے اب درخواست میں یہ لکھا ہے کہ ان کے والد کو اس میں فریق نہ بنایا جائے اور اسے آرٹیکل 35 کے آخری لفظ ’دی چائلڈ‘ تک محدود رکھے۔ اس شق کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شادی، خاندان،بچے اور ماں کو تحفظ فراہم کرے۔ عدالت نے یقین دہانی کروائی کہ وہ اگلی سماعت میں اس معاملے پر مزید غور کرے گی۔ تطہیر کی گذشتہ پٹیشن کو ہائی کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔(ف،م)