لاہور (ویب ڈیسک) آئے روز اربوں روپوں سے لدے ہوئے ایسے لوگوں کے بینک اکائونٹس سامنے آ رہے ہیں‘ جن کے گھروں میں دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے میسر ہے… تو پھر یہ بیس ارب سے زیادہ کے بینک اکائونٹس کن کے ہیں؟ یہ کوئی معمولی بات نہیں… میری طرح کیا
نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اس ملک کے حساس ادارے اور وزارت داخلہ محسوس نہیں کرتی کہ فالودے والے سے لے کر اس دنیا سے رحلت فرما جانے والے‘ پھر جھنگ اور سیالکوٹ سمیت کراچی اور سندھ کے دوسرے حصوں کے نادار غریب لوگوں کے بینک اکائونٹس سے دھڑا دھڑ دو سے تین ارب روپے کے ایک درجن کے قریب بینک اکائونٹس اچانک کیوں ایک ایک کر کے ٹی وی کی سکرینوں پر فلیش ہو رہے ہیں؟ اور سوچیے کہ یہ سب اسی وقت کیوں ہو رہا ہے جب امریکہ اور بھارت کی ملی بھگت سے پاکستان کو گرے لسٹ کی ممکنہ بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے لئے فرانس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ اسے کوئی سازش کہیں گے یا حسن اتفاق قرار دیں گے کہ ادھر پاکستانی بینکوں سے ارب ہا روپوںکے ایسے بینک اکائونٹس کی مشکوک Transactions سامنے آنا شروع ہوئی ہیں‘ جن کے اکائونٹ ہولڈر بظاہر تو چند ہزار روپے سے زیادہ جمع کرنے کی سکت نہیں رکھتے‘ دوسری طرف جیسے ہی ان کائونٹس کی تعداد بڑھ کر ایک درجن کے قریب پہنچتی ہے‘ تو یک دم ایف اے ٹی ایف کی ٹیم اسلام آباد پہنچ جاتی ہے‘
جہاں اس کا سب سے پہلا پڑائو ایس ای سی پی میں ہوتا ہے‘ جہاں ابھی تک اسحاق ڈار کی مہربانیوں سے نواز دوست افسران تعینات ہیں‘ اور یہی حال خیر سے ایف بی آر کا بھی ہے۔ کیا یہ سب مل کر عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی گل کھلانے والے ہیں؟ جو لوگ میرے ان الفاظ کو غیر سنجیدہ سمجھ رہے ہیں‘ ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اور… ملکی سلامتی سے متعلق فیصلہ ساز شخصیات‘ اسحاق ڈار کے لندن بیٹھ کر میڈیا پر کہے گئے ان الفاظ کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔ انہوں نے کہا تھا ”اگر مجھے یہاں لندن میں تنگ کیا گیا‘ تو ایسے ایسے راز کھولوں گا کہ سب کی عقل ٹھکانے آ جائے گی‘‘۔ اگر میرا یہ اندازہ یا خدشہ بے بنیاد ہے‘ تو بھی عام لوگوں کے‘ جن کی ماہانہ آمدنی تیس چالیس ہزار سے بھی کم ہے یا وہ جنہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے کئی برس ہو چکے ہیں‘ بینک اکائونٹس سے اربوں روپوں کی ٹرانزیکشنز ہم سب کے لیے ایسے وقت میں لمحہ فکریہ ہونی چاہئیں‘ جب ایف اے ٹی ایف کا اجلاس سر پر کھڑا ہے۔ یاد رکھیے دنیا منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کو آج کل ایک دوسرے سے منسلک ظاہر کر رہی ہے۔
کاش میں سپریم کورٹ کا وکیل ہوتا یا میرے پاس اتنے وسائل ہوتے کہ کسی اچھے وکیل کی خدمات حاصل کر سکتا‘ تو یہ پٹیشن ضرور داخل کراتا کہ چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور سپریم کورٹ کے سینئر ججز پر مشتمل ایک لارجر بینچ یا تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیتے ہوئے ان قومی مجرمان کی نشاندہی کی جائے‘ جنہوں نے میرے وطن کو لوٹا ہے اور اس میں کسی مذہبی یا سیاسی جماعت سمیت با اثر قبیلے کے سرداروں کا فرق ختم کر دیا جائے۔ اس تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے ( خدا کا واسطہ ہے‘ 2013ء کے انتخابات میں کی جانے والی دھاندلی کا سراغ لگانے کے لیے بننے والے یا پھر کواپریٹو بینکوں کے ذریعے غریبوں کے کھربوں روپے کے ڈاکوں پر پردہ ڈالنے اور شریف برادران کو کلین چٹ دینے والے لون کمیشن جیسا کمیشن نہ بنایا جائے) معلوم جائے کہ پاکستان پر 94 ارب ڈالر کے قرضوں کا پہاڑ لادنے والے کون کون ہیں؟ ان سے پوچھا جائے کہ قرضوں کے نام پر تم نے یہ ایک کھرب ڈالر کی رقوم کب وصول کیں‘ انہیں کہاں اور کس کس جگہ خرچ کیا؟ اس کمیشن کے دائرہ کار میں نواز شریف‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جنرل مشرف‘ آصف زرداری کا دور حکومت شامل کیا جائے…
کمیشن یہ بھی معلوم کرے کہ کس دور میں تجارتی خسارہ جان بوجھ کر اور کتنا بڑھایا گیا؟ یہ تحقیقاتی کمیشن قوم کو بتائے کہ ہم نے 9 ارب ڈالر دسمبر کے آخر تک آئی ایم ایف سمیت دوسرے مالیاتی اداروں کو ادا کرنے ہیں۔ بتایا جائے کہ نواز حکومت کی جانب سے بار بار حاصل کیے گئے قرضوں کی ادائیگیوں کی آخری مہلت دسمبر میں ختم ہونے جا رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نریندر مودی ہی کی طرح پاکستان سے نفرت ہے‘ کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو میرے اس موقف سے اختلاف ہو‘ لیکن ٹرمپ کی ذہنی کیفیت اور اسرائیل اور بھارت سے جنون اور وارفتگی کی حد تک محبت ہمارے لئے اطمینان کا باعث نہیں ہونا چاہئے کیونکہ گزشتہ تین برسوں میں ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک لفظ بھی ہمدردی کا سننے میں نہیں آیا‘ اور اس نے ہر قدم پر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹرمپ کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اس امر سے کیجئے کہ چینی حکومت کا امریکہ نے 1300 ارب ڈالر قرضہ ادا کرنا ہے‘ لیکن وہ ہر اس شخص کے ہاتھ کاٹنے کو پھرتا ہے جو چین کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتا ہے…
سوچئے کہ ہم نے تو 9 ارب ڈالر قرض لینا ہے اور اتنی ہی رقم کی دسمبر میں ادائیگیاں بھی کرنی ہیں… تو ہمارے ساتھ ٹرمپ کا رویہ کس طرح کا ہو گا‘ جبکہ وہ افغانستان میں اپنی نا کامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے امریکی عوام کے سامنے سرخ رو ہونے کے لئے ہر قسم کی گھٹیا کوشش کر رہا ہے۔ اب تو امریکی عوام نے ٹرمپ سے مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ پاکستان کو فوجی اور وار فنڈز کس لئے ادا کئے جا رہے ہیں؟ افغانستان میں داعش اور طالبان کے بڑھتے ہوئے رسوخ اور امریکی افواج کی اب تک کی ناکامی کے تناظر میں ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ ٹرمپ پینٹاگان کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو امریکی ٹیلی ویژن چینل فاکس نیوز کا اینکر ریٹائرڈ جنرل تھامس میکنری سے پوچھ رہا تھا ”17 برس بعد بھی امریکہ ابھی تک افغانستان میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکا؟‘‘ جس پر بغیر کسی توقف کے جنرل میکنری نے کہا: میرا ایک لفظی جواب ہے ”پاکستان‘‘۔ اس پر فاکس نیوز کا اینکر چلا کر بولا جنرل میکنزی ”پھر ہم امریکی اپنے ٹیکسوں سے پاکستان کو کس لئے War Funds دیئے جا رہے ہیں۔ فاکس نیوز کا جنرل میکنری سے اگلا سوال تھا:
امریکی عوام ہم سے پوچھتے ہیں کہ 17 برس گزرنے کے بعد کیا امریکہ اور نیٹو فورسز کے لئے یہ باعث شرم نہیں کہ طالبان آج بھی افغانستان میں دندناتے پھرتے ہیں؟ اس پر جنرل میکنری نے کہا: اس وقت بلوچستان کے چھ شہروں میں طالبان کے لئے فنڈز اور جہادی تیار کئے جا رہے ہیں اور جب افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکی افواج آپریشن کرتی ہے تو یہ بھاگ کر پاکستان میں پناہ لے لیتے ہیں۔ امریکی جنرل کے یہ الفاظ امریکہ میں بہت ہی مقبول فاکس نیوز اس وقت نشر کر رہا تھا‘ جب امریکی صدر ٹرمپ افغانستان بارے کوئی بڑی جارحانہ حکمت عملی تیار کرنے کے لئے پینٹاگان میں انتہائی اہم اجلاس میں شریک تھے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو دھمکی آمیز لہجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دیا جانے والا یہ پیغام کہ امریکہ اگر اپنا ہاتھ اٹھا لے تو سعودی بادشاہت دو ہفتوں کی مہمان رہ جائے گی‘ لگتا نہیں کہ سعودیہ کو یہ پیغام ایسے وقت میں دیا گیا جب ولی عہد محمد بن سلمان کے وزیر توانائی کی سربراہی میں بھیجی ہوئی ٹیم پاکستان میں موجود تھی … اس دھمکی کے بعد تیل میں رعایت اورSilent فنڈز کی بات پیچھے دھکیل دی گئی۔۔۔ جس سے ہمارا زر مبادلہ صرف چالیس دن کیلئے رہ گیا۔