counter easy hit

اگر حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی تو اسکا اگلے الیکشن میں عمران خان کو کیا نقصان ہو گا ؟ ماہرین نے انوکھے خدشے کا اظہار کر ڈالا

لاہور (ویب ڈیسک) لگتا ہے حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بارے میں ابھی تک گومگو کا شکار ہے۔ وفاقی وزرأ اور مشیران کرام جن متضاد خیالات کا اظہار کرتے ہیں، ان سے تو یہی آشکار ہوتا ہے کہ حکومت ابھی تک اس معاملے میں یکسو نہیں ہوسکی۔
نامور تجزیہ کار قدرت اللہ چوہدری اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں۔۔۔ حکومت کے اقتصادی و توانائی کے امور کے ترجمان ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورت حال بالخصوص غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی کی وجہ سے فوری مالی معاونت درکار ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ دوست ممالک کی معاونت حاصل کرنے کا آپشن اختیار کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم کا دورۂ سعودی عرب درست سمت میں اقدام ہے جس سے ہمارے قومی مفادات اور اقتصادی شعبے کو فائدہ پہنچے گا۔ اس بحران میں ہمیں مخلص اور سچے دوستوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے 15 ارب ڈالر کا پروگرام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر دوست ملکوں سے تعاون مطلوب ہے تو بظاہر اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی ایک دوست ملک اتنی بڑی رقم کا فوری طور پر انتظام کرسکتا ہے۔ حکومت کی ایڈوائزری کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جائے گا تو اقتصادی پالیسیاں وزارت خزانہ نہیں بنا پائے گی بلکہ تمام پالیسیاں آئی ایم ایف بنائے گا۔
جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تھی، اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتا تھا، لیکن وہ حکومت چلی گئی اور اگلا الیکشن ہار گئی۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی اور اس نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے اور پیکج لیا اور الیکشن ہار گئی۔ میرے خیال میں جو ماضی میں ہوا، اس کا اعادہ اب بھی ہوگا۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی تو الیکشن نہیں جیت سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے تو ہماری معیشت کی شرح نمو 4 فیصد سے اوپر نہیں جائے گی اور حکومت نے ایک کروڑ نوکریوں کا جو وعدہ کر رکھا ہے، اس کے لئے یہ شرح 7 فیصد سے اوپر ہونی چاہئے، جو ناممکن ہے۔ میں نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو تحریک انصاف اگلا الیکشن نہیں جیت سکے گی۔ یہ دو ماہرین معاشیات کی رائے ہے، جن کا تعلق حکومت سے ہے۔ ایک اقتصادی و توانائی کے امور میں حکومت کے ترجمان ہیں اور دوسرے ماہر معاشیات ایڈوائزری کونسل کے رکن ہیں جو حکومت کو اقتصادی امور کے بارے میں مشورے دیتی ہے۔
حکومت اس کونسل کا مشورہ کس حد تک مانتی ہے یہ تو معلوم نہیں، لیکن دونوں ماہرین نے اپنے اپنے انداز میں ایک ہی بات کہی ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پا س نہیں جانا چاہئے۔ ایک کا خیال ہے کہ دوست ملک اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ دوسرے نے خبردار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جاکر وزارت خزانہ پالیسیاں نہیں بنا سکے گی بلکہ یہ کام بھی آئی ایم ایف ہی کرے گا۔ خود حکومت کے اندر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس مجبوراً جانا پڑے گا اور اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ دوست ملکوں سے مطلوبہ رقم ملنے کا امکان کم ہے۔ پاکستان کو رقم کی فوری ضرورت ہے اور آئی ایم ایف کے پاس گئے بھی تو پیکج دسمبر میں ملے گا، اس لئے فوری طور پر کیا راستہ اختیار کیا جائے، اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ وزیراعظم کی سعودی عرب سے واپسی پر ہی ہوگا، لیکن بہتر ہے سعودی عرب سے بھی غیر حقیقی توقعات وابستہ نہ کی جائیں۔ ماہرین معیشت تو ظاہر ہے اپنی اپنی رائے دیتے ہیں۔ وہ سیاستدانوں کی طرح 146146سیاسی بیانات145145 نہیں دیتے،
کیونکہ سیاست دان تو بڑے سے بڑا دعویٰ کرکے یہ کہہ کر 146146سرخرو145145 ہو جاتا ہے کہ یہ سیاسی بیان تھا جیسا کہ عمران خان سال ہا سال تکرار کے ساتھ کہتے رہے کہ نجم سیٹھی نے 35 پنکچر لگائے تھے، اس کا مفہوم وہ یہ لیتے تھے کہ انہوں نے 35 حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے حق میں دھاندلی کرائی۔ نجم سیٹھی نے اس پر عمران خان کے خلاف مقدمہ بھی دائر کر رکھا تھا، لیکن جب حکومت نے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا تو یہ معاملہ سرے سے وہاں اٹھایا ہی نہیں گیا۔ لوگوں کو اس پر حیرت ہوئی اور جب عمران خان سے یہ پوچھا گیا کہ 35 پنکچروں کا معاملہ جوڈیشل کمیشن کے روبرو کیوں نہیں اٹھایا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو سیاسی بیان تھا۔ اس پر نجم سیٹھی نے کہا کہ عمران خان اخلاقی طور پر معذرت ہی کرلیتے۔ اب جہاں تک آئی ایم ایف کے قرضے کا تعلق ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی یہ قرض حاصل کیا اور مسلم لیگ (ن) نے بھی۔ اس سلسلے میں یہ دونوں حکومتیں نکتہ چینی کا ہدف رہیں اور کبھی ایک وجہ سے اور کبھی دوسری وجہ سے انہیں نکتہ چینی کا سامنا رہا۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے تو صاف گوئی کہہ دیا ہے کہ اسحاق ڈار کے پاس بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا اور ہم بھی مجبوراً اس کے پاس جا رہے ہیں۔ اب جبکہ قرضے کے لئے مذاکرات ہوں گے تو بعض شرائط تو ماننا پڑیں گی۔ کئی شرائط تو پہلے ہی تسلیم کی جاچکی ہیں تاکہ جب آئی ایم ایف کے پاس جائیں تو 146146کیس مضبوط145145 ہو۔ غالباً ایسے ہی مشورے ہیں جن کی وجہ سے حکومت گومگو کی حالت میں ہے، حالانکہ حالات کا تقاضا ہے کہ جو فیصلہ بھی کرنا ہے وہ جلد اور بروقت کرلیا جائے تاکہ سٹاک مارکیٹ سنبھل سکے، معیشت کے بارے میں قیاس آرائیاں ختم ہوسکیں۔ بہتر یہ ہے کہ معیشت کے متعلق خواہ مخواہ کی غلط فہمیاں نہ پھیلائی جائیں اور عوام کے سامنے حقیقی تصویر رکھی جائے۔ سابق حکومت یا حکومتوں کو ہر معاملے میں معتوب ٹھہرانے سے ضروری نہیں کہ عوام کی ہمدردیاں حاصل ہوسکیں۔ مولانا فضل الرحمن تو کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں شاید آئی ایم ایف اور عالمی بینک قرض دینے ہی سے انکار کر دیں۔