موٹر سائیکل متوسط طبقے کے لئے ایک کفایتی سواری ہے۔ ملک میں ٹرانسپورٹ کے نظام کی زبوں حالی کے باعث غریب اور متوسط طبقہ موٹر سائیکل پر مع اہل و عیال سفر کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ یوں تو قیام پاکستان سے ہی مرد و زن سائیکل کی سواری کرتے چلے آئے ہیں۔ اوریہ کوئی معیوب بات بھی نہیں سمجھی گئی۔ مسئلہ مگر ہماری قوم کا ہمیشہ یہ رہا کہ فرنگیوں کی ایجاد کردہ مشین تو قبول کرلیتے ہیں لیکن اسے برتنے کا فرنگی طریقہ قبول نہیں کرتے۔
سائیکل ہو یا موٹر سائیکل اس پر سواری کرنے کے لئے مناسب ترین لباس پتلون شرٹ ہے۔ لیکن ہم شلوار کرتا، دھوتی، ساڑھی، برقع اور چادر پہن کر بھی اس ہوائی گھوڑے کی سواری کرنا چاہتے ہیں۔ سائیکل اور موٹر سائیکل پر سوار ہونے کا محفوظ، اور آرام دہ طریقہ ٹانگیں دونوں طرف لٹکا کر بیٹھنے کا ہے۔ مگر ہماری خواتین ایک ہی طرف دونوں ٹانگیں رکھ کر سفر کرنا پسند کرتی ہیں۔ جس سے موٹر سائیکل کا توازن کبھی برقرار نہیں رہ پاتا اور حادثے کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایک یا دو بچے آگے پیٹرول کی ٹینکی پر اور ایک بچہ خاتون کی گود میں بھی لٹکا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ساڑھی، قمیص کا دامن، چادر یا برقعے کا موٹر سائیکل کے پہیے یا چین میں پھنس کر جان لیوا حادثات کا رو نما ہونا معمول کا حصہ بن گیا ہے۔
اب ایسے حالات میں ہماری قوم کو خود فیصلہ کرلینا چاہیے کہ پردہ بکارت زائل ہونے سے بچائیں یا اپنی زندگی کو محفوظ بنائیں؟ جنگلوں بیابانوں میں اونٹوں پر سفر کرنے والوں کی جانوں کو اتنے خطرات درپیش نہیں ہوتے ہونگے۔ جتنے پاکستان میں موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے ایک خاندان کو لاحق ہوتے ہیں۔
اب جہاں تک پردہ بکارت کی سالمیت بقرار رکھنے کا معاملہ ہے۔ تو ہماری قوم کو موٹر سائیکل کی سواری کے طریقوں پر غور کرنے کے بجائے اپنے فرسودہ جنسی نظریات خصوصا شادی سے متعلق خیالات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ علی عباس جلال پوری کی اس موضوع پر ایک بے بدل کتاب “جنسیاتی مطالعے” اس سلسلے میں نہایت اکسیر ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کتاب کا شادی کے باب میں ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
“جنسی پہلو سے شادی ایک ایسا معاہدہ ہے جس پر دلہا اور دلہن آنکھیں بند کر کے دستخط کر دیتے ہیں۔ مورس پوسکو نے کہا ہے کہ ” بہترین حالات میں بھی شادی ایک جوا ہوتی ہے۔ ایک صاحب نے استدلال کیا ہے کہ “شادی ایک ادارہ ہے۔ شادی محبت ہے اور محبت اندھی ہوتی ہے۔ لہذا شادی اندھوں کا ادارہ ہے۔ دلہا اور دلہن نہیں جانتے کہ وہ ایک دوسرے کو کامل حظ نفسانی بخش سکیں گے یا نہیں۔ یہ مسئلہ مرد کی نسبت عورت کے لئے زیادہ اہم ہے۔ کیوںکہ جنسی پہلو سے مرد کی کوتاہ ہمتی کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ وہ دلہن جس کا دلہا شب عروسی کو کوتاہ ہمت نکلے، زندگی بھر عذاب جھیلتی رہتی ہے۔ مشرق میں شب عروسی شادی کے لئے بڑی اہم ہے۔ مغرب میں اس کی اہمیت ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ بقول کنسے مغرب میں 80 فیصد لڑکیاں شادی سے پہلے ہی دوشیزگی سے محروم ہو چکی ہوتی ہیں۔ مغرب کے مرد بھی بکارت کو چنداں اہمیت نہیں دیتے”۔
اب یہ ہماری قوم پر منحصر ہے کہ وہ مشینیں تو مغرب سے درآمد کرلے پھر یا تو پردہ بکارت بچانے کے لئے دیسی طریقے سے ان مشینوں کو برتتی رہے۔ یا مغربی طریقہ اختیار کر کے اپنی زندگی محفوظ بنانا۔