لاہور (ویب ڈیسک) لٹیروں کے بعد لا ابالی۔ اس پروردگار کے سوا جس کے عرش اور مظلوم کی آہ میں کوئی فاصلہ نہیں ‘ سننے والا کوئی نہیں۔ شایدآخر کار اس حّی وقیوم کا فیصلہ صادر ہو جائے۔ افتادگانِ خاک کی سن لی جائے۔سوادِ شہر میں زمینوں کے معاملات بے ڈھب ہیں‘
نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔شاملات ! بارہ برس ہوتے ہیں تین مذہبی جماعتوں کے کارکنوں پر مشتمل ایک گروہ سے کچھ اراضی خریدی۔ اس زمانے میں شاملات ‘ بنجرقدیم اور مشترکہ کھاتے کی اصطلاحات سے واقف نہ تھا۔ خاندان کا کچھ روپیہ امانت پڑا تھا۔ سوچا کہ پڑا سڑتا رہے گا ۔ زمین اور کاریں بیچنے والوں ‘رشتہ داروں ‘ دوستوں اور پڑوسیوں ہی کو فریب دیتے ہیں۔ ایک مرحوم دوست نے‘ اللہ انہیں معاف کردے‘ اپنی پارٹی کا شیریں کلام کارکن پیچھے لگا دیا۔ سبز باغ دکھائے کہ چراغاں ہو گیا۔ چالیس ہزار روپے کنال ۔ بولا : ایک عشرے بعد کالونی بنے گی تو کئی گنا یافت ہو گی۔ جب کوئی چیز بہت آسان اور بہت منافع بخش دکھائی دے تو اس سے بچنا چاہیے۔ اللہ کے آخری رسول ؐ کا فرمان ہے کہ لالچی جھوٹے سے دھوکا کھاتا ہے۔ نوسر بازوں کے پرے ہر محلے ہر گائوں‘ بلکہ ہر گلی میں ہیں۔ کترینہ اور ریٹا طوفانوں میں آشکار ہوا کہ مہذب معاشرے بھی خوف ہی سے قانو ن کو مانتے ہیں۔ نیویارک میں بجلی غائب ہو ئی تو ہجوم ٹوٹ پڑے۔ ایک معتبر اور معمر خاتون قیمتی پینٹنگ اٹھائے جاتی تھی ۔ پوچھا:آپ بھی؟
بولی: پہلے کبھی موقع ہی نہ ملا۔ دوسروں کا ذکر ہی کیا‘ رسول اکرم ؐ کی امت سے مخاطب ‘ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے : آخرت ہی افضل و اعلیٰ ہے ‘ مگر دنیا کی زندگی کو تم ترجیح دیتے ہو۔ کم لوگ ہیں ‘ جن کا ضمیرا نہیں روکتا ہے ۔اکثریت خوف سے رکتی ہے۔ پولیس اور عدالتیں‘ جہاں پوری اخلاقی اور انتظامی قوت سے کارفرما نہیں ‘ ان سب کا حال ہمارے جیسا۔اپنے فرزندوں کو ایک چھوٹے سے کاروبار پہ فکر مند پایا۔ چند لاکھ روپے کی چھوٹی سی مشترکہ سرمایہ کاری ۔ اس بارے میں اختلاف تھا کہ کس کا حصہ کتنا ہے۔ شب اضطراب میں گزری کہ برائے نام ہی سہی ‘بچوں میں اختلاف کیوں ہوا۔ اس غفور الرحیم سے دعا کی تو گرِہ فوراً ہی کھل گئی۔ ان سے کہا : جس کا خیال ہو کہ اسے کم ملا ہے ‘ مجھ سے لے لے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہر ایک کا رزق اس کے ذمے ہے۔ اللہ کے آخری رسول ؐ نے فرمایا تھا : ایک آدمی ہے‘ چہرا گرد سے اٹا ‘وہ پکارتا ہے ”اللہ اللہ ‘‘لیکن اس کی دعا قبول نہ کی جائے گی۔ اس لیے کہ اس کے پیٹ میں حرام ہے۔ سبھی نے ہتھیار ڈال دیئے۔ زیادہ تر اپنے حق سے بھی دستبردار ہوگئے۔
اتنے میں ایک اور کھکھیڑآپڑی۔ زمین کا ایک ٹکڑا مجبوراً بیچا ہے۔ آئے دن اس پہ اجنبی دّراتے۔ آج پھر انہوں نے کرم فرمایا۔ بارہ دن سے آئی جی سلیمی سے رابطے کی کوشش تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی یہ نگینہ ڈھونڈ کر لائے ہیں۔ شہرت ان کی اچھی ہے ۔ پرانے شناسا بھی ہیں۔ بارہا پیغام چھوڑا ‘مگر جواب ندارد۔ بہت دیر انتظار کیا ۔آپریٹر سے کہا کہ معاملہ آج گمبھیر ہے۔ بیٹے سے کہاکہ وہاں نہ جائے۔ سوچا زمین ہے گاڑی تو نہیں کہ کوئی اٹھا لے جائے گا۔کچھ دیر بعد اس نے فیصلہ کیا کہ ملازمین کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ مال ایک فتنہ ہے اور اولا د بھی۔ اسی میں آدمی آزمایا جاتا ہے۔ ہمارے حاکم مال اور اولاد سے بھی بڑا فتنہ ہو گئے ۔ پچھلے دنوں ایک یکسر بے گناہ آدمی کی ایک تھانے میں سفارش کی تو دو ہفتے تک گالیاں کھائیں۔ تھانے دار ولی اللہ اور میں جرائم پیشہ ہو گیا۔ ایک ایسے آدمی کی خاطر‘ جس کا نام تک مجھے معلوم نہ تھا ۔ عمر بھر جس سے شاید اب واسطہ نہ پڑے۔اخبار نویس کی تنقیدپر برہم پارٹیوں نے جم کے کردار کشی کی۔ تحریک ِ انصاف والے پیش پیش تھے۔ ناراضی اس پر تھی کہ ہمارے لیڈر کو تم لیڈر کیوں کہتے ہو‘
دیوتا کیوں نہیں مانتے۔ کچھ کٹھ ملا ء اور ملحد نجانے کب سے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ ایک خوش بخت بھی ان میں شامل تھا‘ جس کی لیاقت اور دانشوری نے‘ سامنے دھرے ماں باپ کے جنازوں میں شریک ہونے نہ دیا ۔ نالاںیہ ٹولہ اس پر بھی تھا کہ قادیانی کو کمیٹی میں شامل کرنے پہ ایک مسلمان نے واویلاکیوں کیا۔انہیں دشنام کا موقع ملا ۔اس نصیحت کا بھی کہ کالموں میں آیات اور احادیث کا ذکرتک نہ ہو۔ پولیس سے بات کرنے کے سوااب کوئی چارہ نہ تھا۔ اللہ کے آخری رسول ؐ کا فرمان یہ ہے ” دنیا کی محبت ساری خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔اپنے مال سے آدمی کو محبت ہو تی ہے۔ آج تک اللہ نے محفوظ رکھا ۔ اللہ نہ کرے ‘آج جھگڑا ہواور کسی کو زخم آئے‘ کسی کو بھی ۔ مشاہدہ یہ ہے کہ اوّل شکایت ہوتی ہے ‘پھر غیبت ۔ آخر کار بغض و عناد میں ڈھلتی ہے‘ اس کے بعد جتھے بنتے ہیں ۔ ہزار بار خطا کی‘ لیکن عمر بھر اللہ نے بچائے رکھا ہے کہ نوبت جتھے داری تک نہ گئی۔ استثنائی صورتوں کے سوا عدالت تک بھی نہیں۔ زمینوں کی خریداری میں بھی جھوٹے مقدمات کا سامنا بہت کیا۔
خود کسی پہ دعویٰ دائر کرنے سے گریز ہے ۔حالاں کہ کچھ زمین شیخوپورہ میں بھی ہے ‘جس کے نوسرباز مشہور ہیں ۔ اگلے ہی دن جو کچہری جاپہنچتے ہیں کہ ہمارے انگوٹھے سچے اور ان سے لگائے جانے والے نشان جھوٹے ہیں۔ جہاں مرنے والے دادادادی اور ماں باپ کے نشان اشٹام پیپروں پر ثبت کردیئے جاتے ہیں۔ سوچا کوئی ڈھنگ کا پولیس آفسر ملے تو بات کی جائے۔ پچھلی بار بھی ٹنٹا آئی جی محمد طاہر نے ختم کیا تھا‘ جو معلوم نہیں عثمان بزدار کو خوش نہ آئے یا وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو ۔ہر صبح جو فواد چوہدری ‘ فیصل جاویداور نعیم الحق کے ساتھ بنی گالا کے درِ دولت پہ حاضری دیتے ہیں۔ سلیمی نے فون نہ سنا تو کس کس سے بات کی۔ ۔۔۔دشمنوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں۔ ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی ۔۔۔۔ دوست دربار کو پیارے ہوئے۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور علیم خان کے سوا کسی نے سن کر نہ دیا۔ گورنر پنجاب نے بھی مدد کی‘ لیکن اس تیز ی سے صرف علیم خان بروئے کار آئے جو لازم تھی۔ ایک آدھ کانسٹیبل ہی تو بھیجنا تھا۔ تصادم ہی ٹالنا تھا۔ رہی پہاڑی زمین تو روز ِ قیامت تک وہیں پڑی انسانوں پہ حسرت کرتی رہے گی۔
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے۔ اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا ۔۔۔۔ افسوس کہ اس رنج میں ایک دوست کو کھو دیا۔ ملک کی تین اہم ترین شخصیات میں ایک۔ بارہ پندرہ دن سے اس کی تلاش میں تھا۔ وہ کبھی یہاں کبھی وہاں ۔ پندرہ برس کی رفاقت ہے۔حاکم بنتے ہی سینے میں دل شاید پتھرہوجاتا ہے۔ فون اس نے مجھے ہولڈ کرائے رکھا۔ آخر کار پٹخ دیا۔ صاف صاف کہہ دیا کہ اب پانچ برس کے بعد فون کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ حکمران اس دنیا کا سب سے تنہا آدمی ہوتا ہے۔ کچھ اس کے درباری بھی۔ رفتہ رفتہ خلقِ خدا سے الگ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ کھالیں ان کی موٹی ہو جاتی ہیں۔ سبکدوشی کے بعد بھیک کا پیالہ ہو جاتے ہیں۔آخر کو ایک شائستہ پولیس افسر کام آیا۔ کام تھا ہی کیا؟ ناخن برابر‘ مگر نیکی کاکہ فساد ایک بھدّی چیز ہے۔ یہ اس کا حال ہے ‘ جون 2018ء میں‘ صحا فت میں پچاس سال جس کے پورے ہو گئے۔ مملکتِ خداداد میں عام آدمی پہ کیا گزرتی ہے۔ ہم نے اسے بھلا دیا ہے۔ اللہ نے ہمیں بھلا دیا ۔فرمایا: جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا ‘ اللہ اس کی حفاظت سے بے نیاز ہوا۔نا کردہ کار ہیں ‘ خدا کی قسم‘ ناکردہ کار ۔ایک کی جان خطرے میں ہو یا ہزاروں کی ۔ بھنگ پی کر پڑے رہتے ہیں۔ بوجھ‘اللہ کی زمین پہ نرابوجھ۔لٹیروں کے بعد لا ابالی۔ اس پروردگار کے سوا جس کے عرش اور مظلوم کی آہ میں کوئی فاصلہ نہیں ‘ سننے والا کوئی نہیں۔ شایدآخر کار اس حّی وقیوم کا فیصلہ صادر ہو جائے۔ افتادگانِ خاک کی سن لی جائے۔