اسلام آباد (ویب ڈیسک) بحریہ ٹائون کی انتظامیہ نے بدھ کو سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کو بتایا ہے کہ وہ حکومت سندھ کی رضامندی سے متنازع زمین خریدنے کو تیار ہے۔روزنامہ جنگ کے مطابق جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی عملدرآمد بینچ نے بحریہ ٹائون کراچی کے کیس کی سماعت کی۔ بحریہ ٹائون کی طرف سے بیرسٹر سید علی ظفر اور بیرسٹر اعتزاز احسن پیش ہوئے جبکہ مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرف سے خواجہ طارق رحیم، زاہد بخاری اور اظہر صدیق پیش ہوئے۔ بیرسٹر سید علی ظفر نے عملدرآمد بینچ کے سابقہ حکم پر انحصار کرتے ہوئے عدالت میں تجویز پیش کی کہ بحریہ ٹائون متنازع زمین خریدنے کو تیار ہے بشرطیکہ حکومت رضامندی ظاہر کرے۔ فاضل وکیل نے پیشکش کی کہ 2014ء میں زمین کی مارکیٹ ویلیو عدالت کی جانب سے مقرر کردہ کمیٹی وضع کر سکتی ہے۔ تاہم، عدالت نے علی ظفر کو خواہش ظاہر کی کہ پیشکش کو مزید بہتر بنایا جائے اور زمین کی 2018ء کے مطابق مارکیٹ ویلیو طے کر کے اسے دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔اس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہوہ یہ تجویز واپس لیتے ہیں اور نئی پیشکش عدالت کے مشاہدات کو مد نظر رکھ کر پیش کریں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عدالت نے گزشتہ پیشی میں بیرسٹر علی ظفر کی درخواست منظور کرتے ہوئے فاضل وکیل کو تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ علی ظفر نے درخواست کی تھی کہ سابقہ حکم نامے میں ججوں کی اکثریت نے ہدایت کی تھی کہ پروجیکٹ میں زمین اور گھر خریدنے والے فریقین کے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے حکومت بحریہ ٹائون کو زمین فروخت کر سکتی ہے اور اس ضمن میں اگلی سماعت میں عدالت کے روبرو تجاویز پیش کی جائیں۔ بدھ کو علی ظفر کے دلائل سننے کے بعد، عدالت نے ہدایت کی کہ تیسرے فریقین سے وصول کی جانے والی رقوم عدالت میں سابقہ حکم نامے کے تحت جمع کرائی جائیں۔ عدالت نے علی ظفر کو مزید ہدایت کی کہ عدالت میں حلف نامہ جمع کرایا جائے جسے بحریہ ٹائون کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی حمایت حاصل ہو، حلف نامے میں عدالت کے احکامات پر من و عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے۔ بیرسٹر علی ظفر نے اس موقع پر کہا کہ وہ درخواست دائر کریں گے کہ عدالت میں جمع کرائی جانے والی رقم کو ترقیاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے گا۔اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ جب درخواست آئے گی تو دیکھا جائے گا۔ سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ بحریہ ٹائون کراچی کے منصوبے میں 500؍ ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے نشاندہی کی کہ تیسرے فریقین کے مفاد کو تحفظ دیا جائے گا، عدالت چاہتی ہے کہ اس کے حکم پر 100؍ فیصد عمل ہو اور اگر خلاف ورزی کی گئی تو کارروائی کی جائے گی۔ سرمایہ کاروں کے وکیل زاہد بخاری نے کہا کہ اگر ترقیاتی کام رک گیا تو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ناقابل برداشت نقصان ہوگا۔ تاہم، جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جب اس ضمن میں درخواست آئے گی تو عدالت تیسرے فریقین کے مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔ اسی دوران عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو ہدایت کی کہ وہ اس کیس میں تحقیقات کے معاملے میں نیب کے ساتھ مکمل تعاون کو یقینی بنائیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 22؍ نومبر تک کیلئے ملتوی کر دی۔