لاہور (ویب ڈیسک) تحریک انصاف کے 100 دنوں پر ہر طرف سے تبصرے ہو رہے ہیں عمران خان کے حامی انکی کارکردگی کو شاندار اور اطمینان بخش قرار دے رہے ہیں جبکہ مخالفین انکے اقدامات میں کیڑے نکال رہے ہیں سادہ لوح عقیدت مند سچ مچ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو جنوبی پنجاب صوبہ بن جائے گا۔ ان کی خوش فہمی بڑی حد تک دور ہوگئی ہے نامور تجزیہ کار قدرت اللہ چودھری اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ اگلے چھ ماہ میں جنوبی پنجاب میں سیکرٹریٹ کا ذیلی دفتر قائم کردیا جائیگا۔ اب حساب کا سیدھا سادہ سوال ہے کہ اگر ایک ذیلی دفتر بنانے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں تو صوبہ بنانے میں کتنے مہینے یا سال لگ جائیں گے، کیونکہ صوبہ بنانا اور خاص طور پر وفاق اور پنجاب میں موجودہ اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے صوبہ بنانا اول تو ناممکن ہے اور اگر اپوزیشن کا تعاون حاصل کرلیا جائے تو بھی اسے ممکن بنانے میں کئی برس لگ سکتے ہیں، البتہ اگر خیبرپختونخوا کی جماعتیں برا نہ منائیں تو اس میں نیا صوبہ بنانا نسبتاً آسان ہے۔ تحریک انصاف صوبے کے حق میں دو تہائی اکثریت سے کم از کم کسی نئے صوبے کی حمایت میں قرارداد تو منظور کرا سکتی ہے اور اگر اپوزیشن کا تعاون حاصل ہو جائے تو صوبہ بن بھی سکتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مطالبہ تو جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا ہے۔ خیبر پختونخوا میں کیوں بنا دیا جائے تو عرض یہ ہے کہ ہزارہ صوبہ تحریک بھی عرصے سے چل رہی ہے۔ اس تحریک کے ایک روح رواں کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ویسے بھی عوام کے اطمینان کے لئے تحریک انصاف یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم نے نئے صوبے کا اعلان تو پنجاب میں کیا تھا لیکن ہمیں اکثریت چونکہ کے پی کے میں حاصل تھی، اس لئے ہم نے وہیں صوبہ بنا دیا ہے۔ جہاں آسانی سے بن سکتا تھا، اب ہمیں پنجاب میں دو تہائی اکثریت ملے گی تو یہاں بھی صوبہ بن جائے گا۔یہ تو جملہ معترضہ ہے بات ہو رہی ہے جنوبی پنجاب کے صوبے کی جو کم ہو کر محض ایک سیکرٹریٹ تک آکر رہ گئی ہے، اب اگلا سوال یہ ہے کہ مجوزہ سیکرٹریٹ کہاں بنایا جائے، ملتان میں بہاول پور میں، ملتان اور قریبی شہروں کے لوگ چاہیں گے کہ سیکرٹریٹ ملتان میں بنے جبکہ بہاول پور ڈویژن کے لوگوں کا خیال ہے کہ ذیلی سیکرٹریٹ بہاول پور شہر میں بننا چاہئے، مغربی پاکستان کے ون یونٹ کے قیام سے پہلے بہاول پور ایک آزاد ریاست تھی، اس ریاست کی بطور صوبہ بحالی کی تحریک بھی چلتی رہی ہے اور آج بھی اس کے حق میں آواز اٹھانے والے بہت ہیں، لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ علیحدہ ریاست کے حامیوں نے اس وقت تو اس سلسلے میں کوئی جدوجہد نہ کی جب وہ شریک حکومت تھے اور اس وقت کے صدر پرویز مشرف تک یہ بات آسانی سے پہنچا سکتے تھے یا انہیں ریاست کی بحالی کے فوائد سے آگاہ کرسکتے تھے، لیکن اس وقت اس ضمن میں خاموشی ہی ان کی بہترین پالیسی تھی، آج کل وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ بہاول پور صوبے کے حق میں بات کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر پنجاب کو تقسیم کرکے صوبہ بنانا ہے تو پہلا حق بہاول پور کا ہے جو ماضی میں بھی ایک آزاد ریاست رہ چکی ہے اور اس دور میں یہاں ہر وہ ادارہ قائم تھا جو ایک ریاست کو چلانے کے لئے ضروری ہوتا ہے،اس لئے اگر بہاول پور صوبہ بن جائے تو یہاں ریاست کا پرانا سٹرکچر بحال کرکے اسے آسانی سے چلایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بہاول پور ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے بلکہ ریاست کے زمانے میں یہاں جو ترقی ہوچکی تھی بعد میں وہ بھی ختم ہوکر رہ گئی، ریاستی دور کی عظیم الشان لائبریری اور اس وقت کے تعلیمی ادارے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جو لوگ جنوبی پنجاب صوبے کے حامی ہیں، وہ بہاول پور صوبہ نہیں چاہتے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایک صوبہ تو شاید کسی نہ کسی طرح وجود میں آجائے لیکن بیک وقت دو صوبے نہیں بن سکیں گے اور جو لوگ بہاول پور کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں، وہ دراصل جنوبی پنجاب صوبے کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں، کیونکہ بہاول پور کی وجہ سے جنوبی پنجاب صوبہ بھی نہیں بن سکے گا۔جہاں تک علاقائی سیکرٹریٹ کے قیام کا تعلق ہے وہ ملتان میں قائم ہو یا بہاول پور میں، اس پر بھی اختلاف رائے ہے۔ بہاول پور کے حامیوں کی دلیل یہ ہے کہ لاہور سے فاصلے کی بنیاد پر اگر سیکرٹریٹ بنانا ہے تو بہاول پور کے لوگ اس کے زیادہ مستحق ہیں، کیونکہ انہیں ملتان کی نسبت زیادہ سفر کرکے لاہور آنا پڑتا ہے، اس لئے اگر ذیلی سیکرٹریٹ بہاول پور میں بن گیا تو پنجاب کے آخری ضلع صادق آباد کے لوگوں کے لئے بھی آسانی رہے گی، اور خود ملتان کے لوگوں کو بھی لاہور کی نسبت کم فاصلہ طے کرکے بہاول پور پہنچنے میں سہولت حاصل ہوگی، چونکہ اب نئے صوبے کے امکانات کم ہوگئے ہیں، اس لئے ساری توجہ سیکرٹریٹ کے قیام پر مرکوز ہوگئی ہے۔ عام انتخابات سے ذرا پہلے عجلت میں جو جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنا تھا اس کی زندگی بہت ہی مختصر ثابت ہوئی اور چند ہفتوں کے بعد ہی یہ پورے کا پورا محاذ تحریک انصاف میں ضم ہوگیا تھا جس نے محاذ کی قیادت سے وعدہ کیا تھا کہ تحریک انصاف برسراقتدار آگئی تو وہ اپنے اقتدار کے پہلے سو دنوں میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنا دے گی اب تو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی کہہ دیا ہے کہ صوبہ بنانا کوئی آسان کام تھوڑا ہے، اسی طرح جہانگیر ترین کا بھی خیال ہے کہ صوبہ کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں، سینئر رہنماؤں کا تو یہ خیال ہے جبکہ خسرو بختیار جیسے رہنماؤں کو اب صوبے کا زیادہ خیال نہیں آتا کیونکہ وہ تو وفاقی وزیر بن گئے ہیں اور اپنے بھائی کو پنجاب میں وزارت دلوا دی ہے، اب اگر جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر ایک ہی گھر کو دو وزارتیں مل جائیں تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے، جنوبی پنجاب صوبے کا کیا ہے، وہ بنتا رہے گا، نہ بھی بنے تو اس سلسلے میں کسی گرمجوشی کی ضرورت نہیں، جب نئے انتخابات ہوں گے، اس وقت جو جماعت جیتنے کی پوزیشن میں ہوگی جنوبی پنجاب کے حامی ایک بار پھر اس سے امیدیں وابستہ کر لیں گے اور یوں جنوبی پنجاب کا قافلہ کسی نہ کسی سٹیشن پر تو رک ہی جائیگا۔