لاہور (ویب ڈیسک) ناصر (فرضی نام) نے ایک سچا واقعہ لکھا جس نے کالے جادو کے ذریعے ایک ایسی لڑکی سے شادی کر لی جو اس سے بدترین نفرت کرتی تھی لیکن آج وہ دو بچوں کا باپ ہے۔ فرزانہ (فرضی نام) ایک لڑکی جو اپنے گائوں سے بھاگ کر شہر آئی تھی۔
نامور خاتون کالم نگار طیبہ ضیاء چیمہ اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہاں اس کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی جس سے اس نے شادی کر لی لیکن کچھ عرصے بعد اس نے لڑکی کو طلاق دے دی۔ ناصر لکھتا ہے کہ میراگھر اس کے گھر کے سامنے تھا۔ میں اکثر اس خوبصورت لڑکی کو حسرت سے دیکھتا تھا۔ کئی بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے دھتکار دیا۔ اسے طلاق ہو گئی اور وہ بے یار و مددگار ہوگئی تو میں نے اس سے راہ و رسم پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی۔ ایک روز وہ اپنے کرائے کے مکان میں پریشان بیٹھی تھی۔ مالک مکان اس سے کرائے کا تقاضا کر رہا تھا لیکن طلاق کے بعد کوڑی کوڑی کی محتاج تھی لہٰذا مکان خالی کرنے کا حکم سن کر اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے اس کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے یہ موقع غنیمت جانا اور مالک مکان کو کرایہ ادا کرنے کے علاوہ اسے پناہ دینے کی پیشکش کی لیکن وہ نہ مانی۔ اس دوران محلے کی ایک فیملی نے اسے اپنے گھر رکھ لیا۔ بعد میں پولیس نے لڑکی کو دارالامان میں پہنچا دیا۔
اس سے ملاقات کی خواہش میں دارالامان پہنچا۔ دو تین مرتبہ کوشش کے باوجود مایوسی پر میں نے ایک بابے سے رابطہ کیا۔ بابا عملیات اور جادو ٹونے کی شہرت رکھتا تھا۔ بابے نے لڑکی اور اس کی ماں کا نام مانگا اور یقین دلایا کہ اس کے عمل سے اس کے بعد لڑکی کی شادی تمہارے علاوہ اور کسی کے ساتھ نہیں ہو پائے گئی اور یہ کہ عمل کے ذریعے ایسا حصار قائم کر دوں گا کہ شہر سے باہر نہ جا سکے گی۔ ایک ہفتے کے عمل کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ جاؤ لڑکی سے ملاقات کا انتظام کرو۔ میں ایک بار پھر دارالامان پہنچ گیا لیکن لڑکی نے ملنے سے پھر انکار کر دیا۔ بابے نے دوبارہ جانے کو کہا کہ اب تمہارا کام ہو جائیگا۔ میں پھر دارالامان پہنچ گیا۔ اس بار خلاف توقع لڑکی نے ملاقات پر رضامندی ظاہر کر دی اس کے بعد ہماری دو تین ملاقاتیں اور ہوئیں اور پھر ہم دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ آج ہمارے دو بچے ہیں اور ہم خوشگوار ازواجی زندگی بسر کر رہے ہیں البتہ آج بھی یہی سوچتا ہوں کہ شادی سے پہلے اہلیہ کے دل میں میرے لئے نرم گوشہ دار الامان کی سختیوں کے سبب پیدا ہوا تھا
یا واقعی بابے کے جادو نے اپنا اثر دکھایا؟ جبکہ اہلیہ کا کہنا ہے کہ اچانک میرے دل میں تمہارے لئے ہمدردی اور محبت کا جذبہ موجزن ہو گیا تھا۔ “۔۔۔ ناصر مزید لکھتا ہے کہ ایک ہوٹل والے کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے ایسا زبردست عمل اور تعویز گنڈے کرا رکھے ہیں کہ اس کے قریب و جوار میں ایک میل کے فاصلے تک کوئی دوسرا ہوٹل اپنی دکانداری چمکانے سے قاصر ہے۔ ایک دو نے کوشش بھی کی تو ان کے پکوان میں چند گھنٹوں بعد ہی پراسرار طریقے سے شدید بو کے بھبھکے اٹھنے شروع ہو جاتے تھے۔ ناصر کا لکھنا ہے کہ روحانی علاج کرنے والے چند دیگر عاملوں کے آستانے میں اس کی ملاقات ایسے متعدد افراد سے ہوئی جو اپنے کاروبار اور اہل خانہ پر کئے گئے جادو کی کاٹ کے لئے وہاں پہنچے تھے۔ مثلا وہاں ایک پٹھان نے اسے بتایا “میں نے اپنی والدہ کے علاج پر ڈیڑھ لاکھ خرچ کر ڈالے لیکن نہ مرض کی تشخیص ہو سکی نہ کوئی افاقہ ہوا۔ والدہ کے کبھی سر میں شدید درد ہوتا تو کبھی وہ پیٹ کے درد سے دہری ہو جاتی تھیں۔ میں ایک نجی ہسپتال میں ان کا مسلسل علاج کرتا رہا۔ ہار کر روحانی علاج کی طرف متوجہ ہوا تو معلوم ہوا کہ والدہ پر کسی نے عمل کرا رکھا ہے
اب دو ماہ سے روحانی علاج کرا رہا ہوں اور خاصا افاقہ ہے۔ “مخالفین کی لڑکیوں کے رشتوں کی بندش، گھر میں فساد، شوہروں کی فرمانبرداری کے لئے بھی کثرت سے جادو ٹونہ، تعویز گنڈے اور نقش بنوائے جا رہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی بھی ہے جو من پسند محبوب کا دل جیتنے کے لئے روحانی عملیات پر رقم خرچ کر رہے ہیں۔ ایک عامل کے مطابق تعویز گنڈے کرانے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔ کوئی اپنی ساس پر حاوی ہونا چاہتی ہے تو کسی کی خواہش ہے کہ بیٹا، بہو سے زیادہ اس کی سنے۔ مؤکل بھی دراصل جنات ہوتے ہیں بعض لوگوں کے نزدیک یہ فرشتے ہیں۔ مؤکل روحانی عمل کے علاوہ کالے جادو اور سفلی عمل سے بھی تابع کئے جاتے ہیں۔ انہیں قابو کرنے کے لئے ہر قسم کے عمل میں چلہ کاٹنا ضروری ہے البتہ نوری وظیفے کے دوران پانچ وقت کی نماز پڑھنا اور پاک و صاف رہنا شرط ہے۔ اس کے برعکس سفلی عمل میں ناپاک رہنا لازمی ہوتا ہے۔ ایک بابے نے بتایا کہ پاک اورصاف رہنے اور پنج وقتہ نماز کے علاوہ نوری چلہ کرنے والے کا دوران عمل کسی نجس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی ممنوع ہوتا ہے
جبکہ 41دن تک وہ کسی دوسرے کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھا سکتا۔ بابے نے بتایا ” اپنے استاد کی جانب سے مؤکل کو تابع کرنے کی اجازت کے بعد میں 41 دن کے چلے میں روز گیارہ سو مرتبہ قل شریف پڑھتا تھا۔ چلہ مکمل ہونے پر نیاز کرائی جو یتیم بچوں میں تقسیم کرا دی۔ “سفلی عمل کے ذریعے مؤکل کو قابو کرنے کے لئے بھی عموما 41 دن کا چلہ کاٹنا ضروری ہے۔ روحانی یا سفلی دونوں قسم کے عملیات کے لئے عامل اپنے گرد حصار کھینچ کر بیٹھتا ہے۔ بعض کے چلے الٹے بھی ہو جاتے ہیں جس سے عامل پاگل یا نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔ عاملوں اور جادوگروں میں ہمزاد کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ ہمزاد ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے، ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے اور ساتھ ہی مرتا ہے۔ کچھ کے نزدیک یہ شیطان ہے۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ ہمزاد کا جسم لطیف، انسان کا سایہ ہے۔ اس بارے میں مشہور ہے کہ اگر کوئی عامل کسی متقی، پرہیزگار اور پنج وقتہ نمازی کے خلاف ہمزاد کو استعمال کرے تو اسے الٹا نقصان ہوگا۔ بابے کے مطابق ہمزاد کی بہت سی قسمیں ہیں مثلا : علوی، عکسی یا غیبی وغیرہ۔۔ اس میں ہمزاد علوی قسم بہت قوی تصور کی جاتی ہے۔
یہ تصور عام ہے کہ ہمزاد کو قابو کرنا سب سے مشکل کام ہے اور اس کا چلہ خواہ نوری ہو یا سفلی بڑا سخت ہوتا ہے۔ مؤکل و ہمزاد کو قابو کرنے کے لئے مختلف چلے کاٹنے پڑتے ہیں۔ ایسے افراد کا زیادہ وقت جائے نماز اور الگ کمرے میں گزرتا ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ اس نے اب تک کل 12چلے کاٹے، 13واں کر رہا ہے لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ جب دیکھو جائے نماز بچھائے کسی پڑھائی میں مصروف نظر آتا تھا۔ایک بار کہنے لگاکہ میں آج کل جو چلہ کاٹ رہا ہوں اکتالیس دن مکمل ہونے پر اس رات کوئی ایک ڈیڑھ بجے مجھے کسی تازہ بزرگ کی قبر پر جا کر پڑھائی کرنی ہے اور شرط یہ ہے کہ جاتے ہوئے اور واپسی میں گھر پہنچنے تک کسی سے بات نہیں کرنی۔ اس نے زیادہ تر چلے مؤکل کو تابع کرنے کے لئے کئے جبکہ ہمزاد کو قابو کرنے کے لئے صرف ایک بار چلہ کاٹا تھا۔ ان صاحب نے مزید بتایا کہ اس کے مرشد نے 41دن تک عشاء کے وقت گلاب کے پھولوں پر آیتہ الکرسی پڑھنے کو بتائی تھی۔ روز ایک خالی کمرے میں وضو کرنے کے بعد چھری سے (حصار) بنا کر بیٹھ جاتا پیچھے چراغ جلا کر رکھتا جس سے اس کا سایہ سامنے پڑ رہا ہوتا جس پر نظر کرکے وظیفہ پڑھتا۔
رات دو بجے کے قریب یہ عمل کر کے گلاب کے پھولوں کو اٹھاتا سات سرسو ں کے تیل سے چراغ جلا کر ایک پیپل کے درخت کے نیچے رکھ آتا تھا لیکن یہ عمل کامیاب نہ ہوسکا۔ منتر کے بارے میں اس نے بتایا کہ ہر عامل عموما اپنی مادری زبان میں منتر بناتا ہے جو سینہ بہ سینہ چلتے ہیں۔ مؤکل کو تابع کرنے کے چلے کے بارے میں اس کا کہنا تھا ” اس کے لئے بھی اس نے 41 دن کا چلہ کاٹا تھا۔ منتر کے علاوہ سورۃ مزمل بھی پڑھنی ہوتی تھی۔کسی طریقے سے 41دن پورے ہوئے تو اس رات قبرستان میں کسی تازہ قبر پر جاکر آدھا گھنٹے پڑھائی کرنا تھا۔ یہ آخری مرحلہ تھا۔ جب قبرستان میں ایک تازہ قبر پربیٹھا پڑھ رہا تھا تو آسمان سے کوئی تیز روشنی سی لپکی، وہ کچھ خوفزدہ ہوا لیکن ہمت کر کے پڑھتا رہا واپس اپنے ٹھکانے کے نزدیک پہنچا تو ایک سائیکل والے نے پوچھا کہ قبرستان کو کون سا راستہ جاتا ہے۔ وہ غیر ارادی طور پر اسے پتہ سمجھانے لگا پھر خیال آیا کہ مرشد نے کہا تھا گھر لوٹنے سے پہلے کسی سے بات نہیں کرنا لیکن اس سے یہ غلطی ہو گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ آج بھی سوچتا ہوں کہ شاید اسی وجہ سے میرا وہ چلہ نا کام ہوا۔ ایک خیال بھی ستاتا ہے کہ اتنی رات ویرانے میں سائیکل والا کہاں سے آ گیا تھا۔۔۔؟ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔۔