لاہور (شیر سلطان ملک )دو روز قبل ایک 2 سالہ پاکستانی نژاد امریکی بچی زینب کی جان بچانے کے لیے دنیا میں نایاب بلڈ گروپ کی تلاش کی خبر سامنے آئی تھی ۔بچوں کو نشانہ بنانے والے کینسر کے مرض میں مبتلا زینب مغل نامی اس بچی کو بڑی مقدار اس نایاب گروپ کے خون کی ضرورت ہے بی بی سی پر شائع ہونے والی ایک انتہائی معلوماتی رپورٹ کے مطابق بامبے بلڈ گروپ کا ذکر اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب اس گروپ کی دو یونٹس ہندوستان سے میانمار روانہ کی گئیں ۔وہاں کی ایک خاتون کی سرجری تھی لیکن اپنے ملک میں انہیں اپنے گروپ کا خون نہ ملا ۔ تب میانمار کے یانگون جنرل ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ہندوستانی تنظیم سنکلپ انڈیا فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا۔ سنکلپ انڈیا نے کرناٹک کے داونگیرے بلڈ بینک سے رابطہ کیا۔ ان کے پاس اس بلڈ گروپ کی دو یونٹس موجود تھی جو کوریئر سے 27 نومبر کو میانمار بھیجیں ۔ یہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ ایک ملک میں موجود مریض کے لیے کسی دوسرے ملک سے خون منگوانا پڑے ۔ خون کا عطیہ کرنے والا یا بلڈ بینک قرب و جوار میں ہی مل جاتا ہے لیکن بامبے بلڈ گروپ کا معاملہ مختلف ہے ۔ اس حوالے سے میڈیا کو بتاتے ہوئے بامبے بلڈ گروپ کی انچارج کماری انکیتا نے بتایا: ‘یہ بہت کم ملنے والے نایاب خون کی ایک قسم ہے جو کہ انڈیا میں دس ہزار لوگوں میں پائی جاسکتی ہے ۔ خون کا یہ گروپ او گروپ سے مماثل ہوتا ہے ۔ مگر جب کسی مریض کو یہ خون دیا جاتا ہے اس وقت پتہ چلتا ہے کہ جسے او سمجھا جا رہا تھا وہ در اصل بامبے گروپ ہے کیونکہ وہ مریض کے اسی گروپ سے میچ نہیں کرتا۔ اسی حوالے سے دہلی کے گنگارام ہسپتال میں بلڈ بینک کے انچارج ڈاکٹر وویک رنجن نے بتایا: ‘ہمارے خون میں موجود خون کے سرخ ذرات میں کچھ شوگر مولیكيولز ہوتے ہیں، جو یہ تعین کرتے ہیں کہ کس شخص کا بلڈ گروپ کیا ہوگا۔ ان مولیکیولز سے ہی کیپیٹل ایچ اینٹیجن بنتا ہے اور اسی سے باقی اینٹیجنز A اور B کا فیصلہ ہوتا ہے۔’جبکہ بامبے بلڈ گروپ کے لوگوں میں شوگر مولیکیولز نہیں بن پاتے اس لیے ان میں کیپیٹل ایچ اینٹیجنٹ نہیں ہوتا۔ لہذا وہ کسی بھی بلڈ گروپ میں نہیں آتے۔ ڈاکٹر رنجن کا کہنا تھا ایسے بلڈ گروپ والوں کی زندگی معمول کی ہوتی ہے اور انھیں جسمانی و طبی طور پر وہ عام لوگوں سے مختلف نہیں ہوتے ۔ مگر اس نایاب بلڈ گروپ کو بامبے بلڈ گروپ کا نام کیوں دیا گیا ہے ۔در اصل سب سے پہلے اس کی دریافت انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت بمبئی یا بامبے (فی الحال ممبئی) میں ہوئی تھی۔ یہ انوکھا بلڈ گروپ ڈاکٹر وائي ایم بھینڈے نے 1952 میں دریافت کیا تھا۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اب بھی اس گروپ کے زیادہ تر لوگ ممبئی میں پائے جاتے ہیں۔ اور نسل در نسل منتقلی اس کی وجہ ہے البتہ نقل مکانی کے باعث اب دوسرے شہروں میں بھی اس بلڈ گروپ کے لوگ قدرے مشکل سے سہی مل جاتے ہیں ۔