لاہور (ویب ڈیسک) ملتان کے تین مخدوموں کو سیاست میں وہ مقام نہیں ملا جو ان کا حق تھا‘‘۔۔۔ جب مَیں نے ریستوران میں بیٹھے ساتھ والی میز پر لوگوں کی یہ بات سنی تو چونکا۔ یہ کن مخدوموں کی بات کر رہے ہیں؟ کان لگانے پر اندازہ ہوا کہ وہ شاہ محمود قریشی کا ذکر کر رہے ہیں، نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جنہیں آج کل ایک نوآموز نوجوان سیاستدان نے پریشان کر رکھا ہے۔ ملتان کے تین مخدوم یعنی مخدوم جاوید ہاشمی، مخدوم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی واقعی ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ انہیں نمبر ون سیاستدان بننے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اگرچہ مناصب بہت بڑے ملے، مگر ان کا سیاسی قد کاٹھ نہیں بڑھنے دیا گیا یا پھر ان میں صلاحیت ہی نہیں تھی کہ بی کیٹیگری سے نکل کر اے کیٹیگری میں جا سکیں۔ آج کل دو مخدوموں، یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی کا حال تو کچھ اچھا نہیں، اپنی سیاسی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں، تاہم شاہ محمود قریشی اقتدار میں ہیں اور وزارت خارجہ کے منصب پر فائز ہو کر اپنا سکہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ان کی شخصیت کو جس شخص نے گہنا دیا ہے وہ ملتان کا نوجوان سلمان نعیم ہے، جو انہیں صوبائی نشست پر شکست دے کر اسمبلی میں پہنچ گیا اور اب مخدوم صاحب کے ریڈار پر ہے، وہ اسے ہر صورت میں نا اہل کرانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے اپنے منصب کے تقاضے اور اس حقیقت کو بھی بھول گئے ہیں کہ سلمان نعیم تحریک انصاف ہی میں شامل ہے اور پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کو معمولی برتری دلوانے میں اس کا بھی ایک کردار رہا ہے۔ پچھلے ہفتے جب سلمان نعیم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کو آڑے ہاتھوں لیا تو مجھے یہ سوچ کر افسوس ہوا کہ پارٹی میں مرکزی سطح کی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود وہ نچلے درجے کی سوچ سے نہیں نکل سکے۔ اگر وہ اسی طرح سلمان نعیم کو ٹارگٹ کرتے رہے تو بعید نہیں آئندہ انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی نشست بھی اس نوجوان کی وجہ سے ہار جائیں گے۔ سلمان نعیم نے ان پر بدترین اقربا پروری کے الزامات لگائے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی چن چن کر اپنے چہیتوں کو عہدے دے رہے ہیں، جبکہ تحریک انصاف کے حقیقی کارکنوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ملتان کے سیاسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ جہانگیر ترین نے سلمان نعیم کی شکل میں شاہ محمود قریشی کے لئے ایک ایسا درد سر پیدا کر دیا ہے جس سے وہ چھٹکارہ حاصل کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ انہیں اب ملتان کی فکر لگی رہتی ہے اور وزیر خارجہ ہونے کے باوجود اسلام آباد اس وقت جاتے ہیں، جب کسی بیرونی دورے پر جانا ہو وگرنہ زیادہ وقت ملتان میں گزارتے ہیں۔