لاہور (ویب ڈیسک) کراچی کی بینکنگ عدالت سے سابق صدرآصف علی زرداری کی ضمانت میں توسیع نے ایک بات واضح کردی ہے کہ ان کی فوری گرفتاری کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ تاہم پارلیمنٹ سے نااہلی کی تلوار سر پر ضرور لٹک رہی ہے جو کسی بھی وقت چل سکتی ہے۔ نامور کالم نگار اعزاز سید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔گرفتاری ممکنہ طور پر ٹرائل کورٹ میں مقدمے کی سماعت اورفیصلے کے بعد ہی عمل میں آئے گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے عدلیہ نے پہلے نوازشریف کو نااہل کرکے اقتدار سے رخصت کیا اور پھر احتساب عدالت نے انہیں جیل بھیجا۔ ادھر پیر کے روز نوازشریف کے بارے میں احتساب عدالت العزیزیہ ا سٹیل ملز اور فلیگ شپ کمپنیز کیس میں اپنا فیصلہ سنائے گی۔ اب تک کے شواہد اور اشارے بتاتے ہیں کہ نوازشریف ایک بار پھر اڈیالہ جیل بھیج دئیے جائیں گے۔ ایسا ہونا ایک عام بات ہوگی جبکہ ایسا نہ ہونا غیر معمولی۔ فی الحال کسی غیر معمولی بات کا امکان نہیں۔ویسے بھی نوازشریف کے تمام معاملات ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر کے گھر کے ڈرائنگ روم میں طے ہوتے ہیں۔ فی الحال اس ڈرائنگ روم سے کسی ڈیل کی کوئی خبر نہیں۔نوازشریف اور آصف علی زرداری دو مکمل طور پر الگ پس منظر اور الگ الگ خوبیوں اور خامیوں کے حامل کردار ہیں۔ دونوں کے سیاست کے بارے میں الگ الگ نظرئیے اور جماعتیں ان کی شناخت ہیں مگر ان کی زندگیوں کے بعض پہلو ایک دوسرے سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر نوازشریف اور آصف علی زرداری اپنے اپنے دور اقتدار میں مختارکل تھے۔ ان کا اشارہ ابرو لوگوں کی زندگیاں بدلنے میں مرکزی کردارادا کرتا رہا۔ دونوں نے اقتدار کے مزے لوٹے ، دونوں پر کرپشن کے الزام لگے۔ دونوں نے جیل کی کال کوٹھڑیاں دیکھیں، مقدمات بھگتے اور گھوم پھر کر پھر واپس اقتدار میں آئے ۔ نوازشریف اور آصف زرداری دونوں کی سیاست کا آغاز بھی بھٹو کے ذریعے ہی ہوا۔ نوازشریف کو ان کے والد میاں شریف ذوالفقارعلی بھٹو کی طرف سے صنعتیں قومیائے جانے کی پالیسی کے خلاف سیاست میں لائے کیونکہ اس پالیسی نے ان سے ان کی فیکٹری چھین لی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ پیسہ تو ان کے پاس بھی ہے سیاست میں ان کا بیٹا آئے گا تو کاروبار بھی خوب جمے گا۔ ادھر آصف علی زرداری نے بھی سیاست کا آغاز بھٹو سے ہی کیا یعنی بھٹو کی بیٹی سے شادی انہیں سیاسی منظر نامے پرلائی اور بے نظیربھٹو کی موت نے انہیں پیپلزپارٹی بھی تحفے میں دے دی۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری دونوں اپنی عمروں کے آخری حصے میں ہیں اور دونوں چاہتے ہیں کہ ان کی اولادیں سیاست میں ان کی وارث رہیں۔ اتفاق دیکھیے کہ دونوں کو آج یکساں صورتحال کا سامنا ہے۔ جو واقعات سال 2017 اور 18 میں نوازشریف کے ساتھ رونما ہوئے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ وہی رواں سال آصف علی زرداری کے ساتھ رونما ہورہے ہیں اور توقع ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ سال بھی جاری رہے گا۔ میرا ہرگز دعویٰ نہیں کہ پاکستانی سیاست کے یہ دونوں کردار مکمل طور پر صاف ستھرے اور کرپشن سے پاک ایسے فرشتے ہیں جو صرف اور صرف ملک کی بہتری کیلئے دن رات بسرکرتےہیں لیکن میرا یہ دعویٰ ضرور ہے کہ دونوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور دونوں کیساتھ ایک فارمولہ اسکرپٹ کے تحت برتائو کیا گیا۔ جسکا مقصد ان دونوں کو ملکی سیاست سے آوٹ کرنا ہے۔ کہتے ہیں سیاستدان جتنا پرانا ہو اتنا ہی تجربہ کاراور کائیاں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں تجربہ کار سیاستدانوں کی عقل اور بلاغت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ سیاستدان بھی اپنے تجربوں کو اگلی نسل میں منتقل کرتے ہیں۔ نئی نسلیں ان کے تجربوں اور اپنی عقل کی مشترکہ کاوش سے ملکوں اور قوموں کو آگے لے جاتی ہیں۔ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اول تو ہمارے سیاستدان کتابیں لکھتے ہیں نہ لیکچر دیتے ہیں دوئم ہمارے سیاستدانوں کو کچھ حلقےمیڈیا کے ذریعے عوام میں اتنا بدنام کرتے ہیں کہ اقتدار سے رخصتی کے بعد ان کے خلاف کیسز بنا کر ان کا تمسخر اڑایا جاتاہے۔اس وقت آصف علی زرداری کو جعلی اکائونٹس کیس اور نوازشریف کو قومی احتساب بیورو کے بنائے گئے ریفرنسز کا سامنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی بڑی خواہش تھی کہ نوازشریف کے ساتھ آصف علی زرداری بھی نیا سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے ایک حالیہ اجلاس میں بھی کیا تھا۔ مگر ہر بات اورعمل پر جمع تفریق کرنے والوں نے فیصلہ کیا کہ زرداری کوفوری گرفتار نہ کیا جائے۔ فی الحال ایسا کرنا حماقت ہوگی۔ سوچ یہ ہے کہ زرداری کو پارلیمنٹ سے نااہل کروایا جائے اور پھر احتساب عدالت سے انہیں بھی سزا ہو اور وہ بالکل اسی طرح جیل جائیں کہ جیسے نوازشریف جیل گئے تھے۔ اس سارے اقدام کا مقصد انصاف ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد کچھ آئینی تبدیلیاں اور چند حساس موضوعات پر خاموشی ہے۔ ان حساس موضوعات کا اس کالم میں ذکر ممکن نہیں۔نوازشریف اور زرداری فی الحال خاموشی کا وعدہ کرنے کو تیار ہیں نہ کسی آئینی تبدیلی کا۔ دونوں انکار کررہے ہیں اور یہی انکار ان کی سیاسی زندگی ہے۔نوازشریف اور زرداری کا انکار انہیں بار بار جیل تو بھیج سکتا ہے مگر سیاست سے بے دخل نہیں کرسکتا۔ اگر وہ یا ان میں سے کوئی ایک کسی کے کہنے پر کچھ آئینی تبدیلیاں لانے پر حکومت کاساتھ دینے کیلئے تیار ہوگیا۔ تو شاید وقتی طور پر اسے اقتدار میں حصہ مل جائے اور جیل کی سزا سے بچ جائے مگر دونوں میں ایسا کرنے والا تاریخ کی سزا سے ہرگز بچ نہیں پائے گا۔