اہور (ویب ڈیسک) خبر گرم ہے کہ کل اُڑیں گے غالب کے پرزے، تماشا ہو گا اور دنیا بھی دیکھے گی۔۔۔ احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ کمپنیز میں میاں نواز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات میں لمبی سماعتوں کے بعد فیصلہ لکھنا شروع کر دیا ہے نامور کالم نگار عطاالرحمٰن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بلکہ لکھ کر محفوظ کر لیا ہے۔۔۔ اگرچہ یہ بات کاغذی صحافت اور برقی ذرائع ابلاغ میں کھل کر نہیں کہی جاتی مگر سوشل میڈیا اور باخبر حلقوں کی آپس کی ملاقاتوں اور بیٹھکوں میں اس کا پوری طرح اظہار ہوتا ہے کہ اصل فیصلہ کہیں اور سے صادر ہوتا ہے۔۔۔ جج صاحبان اوپر سے نازل ہونے والے احکامات کی روشنی میں اپنے تئیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور پھر سزا یا جزا دینے میں دیر نہیں لگاتے۔۔۔ اسلام آباد کے ایک نہایت درجہ باخبر اور مستند سمجھنے والے صحافی نے کل ہفتہ کے روز اپنے کالم میں لکھ بھی دیا ہے ’’نواز شریف کے سارے معاملات ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر کے گھر کے ڈرائنگ روم میں طے ہوتے ہیں ۔ فی الحال ڈرائنگ دوم سے کسی ڈیل کی کوئی خبر نہیں‘‘۔۔۔ البتہ گزشتہ 28 جولائی کو احتساب عدالت کے نمبر 1 کے جج جناب محمد بشیر ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے حوالے سے اپنا حکم نامہ جاری کرتے وقت صبح 11 بجے سے لے کر رات گئے تک 5مرتبہ نیا وقت دیتے رہے۔۔۔ قوم کے جملہ باشعور افراد منتظر اور بے تابی کا شکار بنے اپنے اپنے کے سامنے بیٹھے رہے ۔۔۔فیصلے کے صدور سے قبل پس منظر میں نہ جانے کیا کچھ ہوتا رہا۔۔۔ اس میں اگرچہ سابق اور تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم نوا زشریف کو 10 سال سے زائد ان کی بیٹی مریم نواز کو 7 سال اور داماد کیپٹن صفدر کو 1 سال قید کی سزا کے ساتھ بھاری جرمانوں کی سزا کا مستوجب قرار دیا گیا تاہم فیصلے کا متن سامنے آیا تو چوٹی کے ماہرین کے نزدیک اس کے اندر کئی قانونی خلاء پائے جاتے تھے۔۔۔ زبان و بیان کی غلطیاں تھیں اور ایسا ظاہر ہوتا تھا جلد بازی میں لکھا گیا ہے۔۔۔ اسی لیے اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوئی تو عارضی طور پر منظور کر لی گئی۔۔۔حتمی فیصلے کے لیے فریقین عدالت عالیہ کے لیے آخری حکم نامے کے منتظر ہیں ۔۔۔ اب جو عدالت نمبر 2 اپنا شاہکار پیش کرے گی تو معلوم نہیں کہ کیا رنگ جماتی ہے۔۔۔ ہم اخباری منشیوں کو قانونی معاملات اور باریکیوں پر نگاہ حاصل نہیں ہوتی تاہم نیب جیسے احتساب کے ’’عظیم‘‘ ادارے کی جانب سے قوم کو جس طرح کا انصاف مل رہا ہے، اس کی جھلکیاں اہل وطن کے دل اور دماغ کو جلا بخشتی رہیں گی ۔۔۔ تازہ ترین مثال سرگوردھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے سابق میاں جاوید احمد کی لاہور کے ہسپتال میں ہتھکڑیوں کی حالت میں عارضہ قلب سے موت کا واقع ہونا ہے۔۔۔ قوم کے نونہالوں کو اعلیٰ تعلیم دینے والے اس ادارے کے سربراہ کے خلاف تفتیش ہو رہی تھی، جرم ابھی ثابت نہیں ہوا تھا۔۔۔ ریفرنس تک تیار نہ ہو پایا۔۔۔ لیکن اسے اس حد تک ذلیل کیا گیا کہ صدمے سے جانبر نہ ہو سکا۔۔۔ افراد قوم کیا پوری دنیا نے اس کی مردہ لاش کو ہتھکڑی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھا۔۔۔ ایسا تو شاید جنگل کے قانون میں بھی نہیں ہوتا ہو گا۔۔۔ اب نیب اس کی ذمہ دار پنجاب پولیس کو ٹھہرا رہی ہے اور پنجاب پولیس الزام سے جان چھڑانے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہے۔۔۔ اگر احتساب اسی کا نام ہے تو معلوم نہیں پاکستانیوں کی غیرت مند قوم کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔۔۔ کیا یہ اس ’ ریاست مدینہ ‘ کاماڈل ہے جس کا وعدہ جناب عمران خان نے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی کیا تھا۔۔۔ اگر تحقیقات کے بعد اس قبیح اور شرمناک کھیل کے ذمہ دار نیب کے حکام ٹھہرتے ہیں تو چیئرمین صاحب کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔۔۔ اور اگر اس مجرمانہ فعل کا ارتکاب پنجاب کی پولیس یا جیل کی انتظامیہ کی جانب سے ہوا ہے تو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے لیے بہتر ہو گا اپنے بارے میں خود فیصلہ کریں ۔۔۔یا عمران خان ان کے بارے میں اپنی قسم توڑ دیں۔۔۔ بے شک احتساب نہ ہو تو کوئی قوم زندہ اور توانا نہیں رہ سکتی۔۔۔ اس کی رگ و پے میں تازہ اور شفاف خون دوڑنے کی بجائے فاسد مادہ جمع ہوتا رہتا ہے لیکن احتساب کو احتساب ہونا چاہیے۔۔۔ وہ احتساب جسے مہذب دنیا اور اسلامی قانون حقیقی انصاف کا نام دیتا ہے۔۔۔ اس میں کسی کی تخصیص نہیں کی جاتی۔۔۔ کسی خاص گروہ کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔۔۔ کسی بھی پہلو سے انتقام کی بدبو نہیں آتی۔۔۔ بے لاگ ہوتا ہے اور جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی قسم کی سزا نہیں دی جاتی یہاں تک کہ ملزم کو شک کا فائدہ بھی دیا جاتا ہے مگر نیب جیسا ہماری قومی تاریخ کے چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کا قائم کردہ ادارہ جس کی خشت اوّل ہی فوجی حکمرانی کے مخالف سیاستدانوں کو ’’کیفر کردار‘‘ تک پہنچانے کے ’’نیک‘‘ ارادے پر رکھی گئی تھی۔۔۔ آج بھی اپنے کالے قوانین کے ذریعے اوپر والوں کے معتوب سیاستدانوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔۔۔ کیا اس ملک میں صرف ناپسندیدہ سیاستدان ہی مجرم ہیں یا ان سے تعلق رکھنے والے چند کاروباری لوگ اور یونیورسٹیوں کے محترم اساتذہ ہیں ۔۔۔ کیا کسی نے اسلحہ کی خریداری میں اربوں ڈالروں کے کک بیکس ہضم نہیں کیے۔۔۔ نہایت درجہ پوش علاقوں میں قائم کردہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے قیام کے پیچھے کیا کیا کہانیاں پوشیدہ ہیں ۔۔۔ کیا انہیں منظر عام پر نہیں لانا چاہیے ۔۔۔ کچھ ریاستی اداروں کے زیر نگرانی چلنے والے بڑے بڑے کاروباری اداروں کے اندر جو بے ضابطگیاں ہوتی ہیں ، وہ اور ان کے ذمہ داران کے کرتوت کیا کھل کر سامنے نہیں لائے جائیں گے۔۔۔ احتساب کرنا ہے تو سب کا کیجیے۔۔۔ کسی کو استثنیٰ نہ دیجیے۔۔۔ وہ جج ہو یا جرنیل ہو یا سیاستدان اور بیورو کریٹ یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔۔۔جو بھی جس غیر قانونی فعل کا مرتکب پایا جائے، اسے ایک ہی کٹہرے میں لا کر کھڑا کیجیے ۔۔۔ ایسا مت کیجیے کہ ان سیاستدانوں کے تو پرزے اڑا کر رکھ دیئے جائیں جو تابع مہمل بننے سے انکاری ہوں جبکہ درونِ مے خانہ یا گھر کے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرما دیا جائے کہ ہمارے یہاں احتساب کا اندرونی نظام موجود ہے جس کے تحت پوچھ گچھ ہوتی رہتی ہے ۔۔۔ ججوں کو بھی عملاً استثنیٰ حاصل ہے کہ فیصلے تو انہیں کے ذریعے نافذ کرانے ہیں ۔۔۔ ایسے کسی ماحول یا نظام کے اندر دنیا کی کوئی زندہ اور تابندہ قوم پنپ نہیں سکتی۔۔۔ جناب آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اگر معاف فرمائیں تو وہ خود بھی اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں ۔۔۔ میثاق جمہوریت میں دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے طے کیا تھا کہ کسی ایک کو بھی برسراقتدار آنے کا موقع ملا تو نیب کی جگہ قومی احتساب کمیشن قائم کیا جائے گا جو جائز اور منصفانہ قوانین کے تحت بلا استثناء ہر طبقے کے افراد کو قانون کی ایک ہی عدالت میں لا کھڑا کرے گا۔۔۔ کسی کو استثنیٰ نہیں دیا جائے گا دوسرے الفاظ میں کوئی گائے مقدس نہیں ہو گی۔۔۔ اس کے بعد 2008ء سے لے کر 2013ء تک جناب زرداری اور ان کی جماعت برسراقتدار رہے۔۔۔ 2013ء سے لے کر جون 2018ء تک میاں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی تھی۔۔۔ پارلیمنٹ میں بھی دونوں جماعتوں کو ملا کر بھاری اکثریت حاصل تھی ۔۔۔ آخر انہوں نے بے لاگ اور بلا امتیاز اس احتساب کمیشن کو کیوں نہیں وجود بخشا جس کا وعدہ بڑے زور شور کے ساتھ قوم کے ساتھ کیا گیا تھا اور جو ان کی اصولی اور اخلاقی ذمہ داری بھی تھی۔۔۔ اگر انہیں کسی کا خوف لاحق تھا تو کیا آج وہ اس خوف کی آگ کے شراروں کا خود شکار نہیں ہو رہے لیکن مسئلہ محض آصف علی زرداری اور نوا زشریف صاحبان کا یا ان کی جماعتوں کے چند افراد کا نہیں ۔۔۔ پوری قوم کے آئینی اور جمہوری مستقبل کا ہے ۔۔۔ نیب کے قوانین میں تبدیلی لانے کی خواہش یا ارادے کا اظہار تحریک انصاف سمیت ملک کی تمام بڑی جماعتیں کر چکی ہیں ۔۔۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی چھائی ہوئی ہیں ۔۔۔ پھر ان کے راستے میں کیا امر مانع ہے۔۔۔ اگر اب بھی کسی کا خوف لاحق ہے تو کم ازکم قوم کو بتا تو دیں وگرنہ معتوب سیاستدان تو کیا ہمارے نو نہالوں کو علم و تہذیب کے زیور سے آشنا کرنے والے محترم اساتذہ کرام اور ان کے یونیورسٹیاں قائم کرنے والوں کو بھی جرم ثابت ہوئے بغیر ہتھکڑیاں لگتی رہیں گی اور وہ میاں جاوید احمد کی مانند سرکار والا تبار کی نازل کردہ ذلت اور رسوائی کا شکار ہو کر ہتھکڑیاں پہنے دم توڑتے رہیں گے۔