برلن(مانیٹرنگ ڈیسک) جرمن حکومت نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور قدم اٹھانے کی تیاری کر لی، مسجدوں پر ٹیکس لگانے کے لیے پر تولے جانے لگے ہیں ،، جس کے لیے جرمن چانسلر بے حد زوردے رہی ہیں،، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جرمنی کے بعض مسلمان رہنما بھی اس ٹیکس کے حامی نکل آئے ہیں،، دنیا سے بڑی خبر یہ ہے کہ جرمن حکومت نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور قدم اٹھانے کی تیاری کر لی، مسجدوں پر ٹیکس لگانے کے لیے پر تولے جانے لگے ہیں ،، جس کے لیے جرمن چانسلر بے حد زوردے رہی ہیں،، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جرمنی کے بعض مسلمان رہنما بھی اس ٹیکس کے حامی نکل آئے ہیں،، تفصیلات کے مطابق جرمن حکومت نے مسجدوں پر ٹیکس لگانے پر غور شروع کر دیا ہے، جرمنی کے بعض مسلمان رہنما بھی اس ٹیکس کے حامی نکل آئے،، جرمن پارلیمنٹ کے ارکان نے کہا ہے کہ ملک بھر میں موجود مسجدوں پر ٹیکس لگایا جائے گا، ٹیکس نیٹ میں آنے سے مساجد غیر ملکی امداد سے آزاد ہو جائیں گی،، جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی پارٹی مسجدوں پر ٹیکس لگانے کے لیے زور دے رہی ہے، کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی نے مساجد پر ٹیکس کو اہم ترین قدم قرار دے دیا،، اتحادی حکومت کے ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ مسجدوں کو غیر ملکی فنڈنگ سے ملک میں بنیاد پرستانہ نظریات کو فروغ ملنے کا خدشہ ہے،، اتحادی حکومت کا حصہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی مساجد پر ٹیکس کی تائید کر دی ہے، جس پر پوری دنیا حیران ہو رہی ہے ،، ایس پی ڈی نے مساجد پر ٹیکس کو قابلِ بحث موضوع قرار دیا،، جرمن حکام کو ترکش اسلامک یونین فار ریلیجیئس افیئرز نامی تنظیم پر تحفظات ہیں، حکام اس کے اثر و رسوخ سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں، یہ تنظیم ترک حکومت کی امداد سے چلتی ہے،، جرمنی کے شہر برلن میں ’ترقی پسند مسجد‘ بھی قائم ہو چکی، ترقی پسند مسجد کی بنیاد رکھنے والے مسلم رہنما نے بھی ٹیکس کی حمایت کر دی ہے، کہا مسلمانوں کو ٹیکس کے ذریعے اخراجات خود برداشت کرنے ہوں گے،، یاد رہے کہ جرمنی ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ وہاں مذہبی آزادی ہے لیکن یہ بات اب غلط ثابت ہو گئی ہے ،،