لاہور (ویب ڈیسک) بالآخر احتساب عدالت نمبر2 اسلام آباد نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم محمدنواز شریف کوفلیگ شپ ریفرنس میں بری کر دیا ہے جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں 7سال قید اور 25ملین ڈالر جرمانے کی سزا دی ہے ۔ عدالت نے میاں نواز شریف کو 10 سال کیلئے کسی بھی عوامی عہدے کیلئے نامور صحافی محمد نواز رضا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔نااہل قرار دے دیا ہے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ میاں نواز شریف نے منی ٹریل نہیں دی، عدالتی فیصلے کے بعد میاں نواز شریف کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا انہیں ایک رات کیلئے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا جب اگلے روز میاں نواز شریف کو ان کی خواہش پر کوٹ لکھ پت جیل منتقل کر دیا گیا ہے یہ وہی جیل ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو سمیت بڑے بڑے لیڈر قید رہے ہیں ۔میاں نواز شریف نے اپنے لئے کوٹ لکھپت کا انتخاب اس لئے کیا کہ وہ چاہتے تھے انکے قریبی عزیز واقارب کو ان سے ملاقات کیلئے لاہور سے راولپنڈی نہ جانا پڑے میاں نواز شریف کو روزانہ 4اخبارات فراہم کئے جاتے ہیں جن میں ان کا پسندیدہ اخبار نوائے وقت بھی شامل ہے ۔ میاں نواز شریف فیصلہ سننے کیلئے خود عدالت میں موجود تھے اور وہ’’ جیل یاترا‘‘ کیلئے ذہنی طور تیار تھے ۔عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں کیس نہیں بنتا، اس لیے نواز شریف کو بری کیا جاتا ہے تاہم احتساب عدالت نے اپنے فیصلے لکھا کہ العزیزیہ ریفرنس میں کافی ٹھوس ثبوت موجود ہیں، لہذا نواز شریف کو 7 سال قید اور25ملین ڈالر جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے عدالت کے زبانی حکم نامہ میں نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، واضح رہے کہ عدالت حسن اور حسین نواز کو عدم حاضری پر پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے اثاثوں کی تحقیقات کا آغاز 3اپریل 2016سے ہوا، پانامہ کی لا فرم موزیک فونسیکا کی لیک ایک کروڑ 15لاکھ دستاویزات نے تہلکہ مچایا۔ جس میں دنیا بھر کے امیر افراد کی جانب سے اثاثہ جات ’’آف شور‘‘کمپنیوں کے ذریعے چھپائے جانے کا انکشاف ہوا، دستاویزات میں نواز شریف سمیت کئی حکمرانوں کے نام سامنے آئے۔ سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کو سنائے گئے پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا گیا تھا جبکہ عدالت عظمیٰ نے نیب کو شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔ 8ستمبر 2017کو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیے۔ احتساب عدالت ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے ہی سنا چکی ہے جس میں نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 اور داماد کیپٹن (ر)محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔دوسری جانب 19 اکتوبر 2017 کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد کی گئی جبکہ 20 اکتوبر2017 کواحتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد کی اور حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ملزمان قرار دیا گیا۔احتساب عدالت نمبر 1 اور2 میں نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، جن میں سے العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔سابق وزیراعظم مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وہ 70 بار احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر اور 60 بار احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کے روبرو پیش ہوئے۔احتساب عدالت نے مختلف اوقات میں نواز شریف کو 49 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا، جج محمد بشیر نے 29 جبکہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو 20 سماعتوں پر حاضری سے استثنی دیا۔احتساب عدالت نمبر ایک میں 70 میں سے 65 پیشیوں پر مریم نواز میاں نواز شریف کے ساتھ ہوئیں ایون فیلڈ میں سزا کے بعد نواز شریف کو 15 بار اڈیالہ جیل سے لا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز جو اپنی والدہ کی وفات کے بعد خاموشی اختیار کر لی تھی نے اپنے والد کو سزا سنائے جانے پر ’’چپ کا روزہ توڑ دیا اور کہا ہے کہ ’’ اندھے انتقام کی آخری ہچکی، ایک ہی شخص کو چوتھی بار سز ا ، تین نسلیں کھنگالنے کے باوجود ایک پائی کی کرپشن نہ کِک بیک اور نہ ہی کمیشن ثابت ہوا مگر فتح نواز شریف کا مقدر ہے ‘‘۔ احتساب عدالت نے نوازشریف کی اڈیالہ جیل کی بجائے کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقلی کی اپیل منظور کر تے ہوئے انہیں اڈیالہ کی بجائے کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کا حکم دیدیا ۔میاں نوازشریف نے نیب ریفرنسز کا فیصلہ عدالت میں بیٹھ کر سنا اور فیصلہ سننے کے بعد انہوں نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے درخواست کی کہ انہیں اڈیالہ جیل کی بجائے کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کیا جائے۔ نیب پراسیکیوٹر کی جانب نواز شریف کی درخواست کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں تھا تاہم عدالت نے نوازشریف کی درخواست منظور کرلی اور انہیں اڈیالہ کی بجائے کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا اور وہ اس وقت کوٹ لکھپت کی تاریخی جیل میں قید کاٹ رہے ہیں جہاں ان کا قیدی نمبر4470 الاٹ ہوا ہے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کواحتساب عدالت نے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں 7سال قید 25 ملین روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ طویل عدالتی جنگ میں نواز شریف نے حوصلہ ہارا اور نہ ہی ہتھیار ڈال کر این آر او مانگا ، بلکہ تھکا دینے والی طویل عدالتی لڑنے کیلئے ہروز صبح 5بجے اٹھ کر احتساب عدالت کا سفر کیا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کسی سیاست دان نے اس قدر پیشیاں بھگتی ہوں ۔ نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے کے ملکی سیاست پر دور رس سیاسی نتائج برآمد ہوں گے ، بظاہرنواز شریف کے جیل جانے سے مخالفین کیلئے سیاسی میدان خالی نظر آتا ہے لیکن میاں نواز نے اپنی گرفتاری سے قبل آرگنائزنگ کمیٹی پر مشتمل اجتماعی قیادت کو پارٹی امور چلانے کی ذمہ داری سونپ دی ہے مریم نواز جو ضمانت پر رہائی کے بعد خاموش تھیں وہ قیادت کا خلا پورا کرنے لئے میدان میں آئیں گی انہیں حمزہ شہباز کی معاونت حاصل ہو گی ۔مریم نواز پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر غیر معمولی طور پر سرگرم ہیں ا ب میاں نوازشریف کو سزا کے بعد کھل کر اپنا سیاسی کردار ادا کریں گی۔ آنیوالے دنوں میں صورتحال مزید واضح ہو جائیگی ، چیئرمین پاکستان مسلم لیگ ن راجہ محمد ظفر الحق جلد پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلا کر پارٹی کا آئندہ لائحہ عمل تیار کریںگے میاں نواز شریف کی سزا کے خلاف ملک بھر احتجاج کے پروگرام کو حتمی شکل دی جائے گی فلیگ شپ ریفرنس میں بریت میاں نواز شریف کی اخلاقی اور سیاسی فتح ہے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کی منظوری کے خلاف عدلیہ کے پاس نیب کی اپیل زیر سماعت ہے۔نیب فلیگ شپ ریفرنس میں شکست پر اعلی عدلیہ کے پاس اپیل کریگی جبکہ میاں نواز شریف بھی عدالتی فیصلے کیخلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کریں گے۔نواز شریف کو سزا دینے کے فیصلے کو اپوزیشن جماعتوں نے یکسر مسترد کر دیا ہے جبکہ حکومتی حلقوں میں نواز شریف کی سزا پرخوشیاں منائی جا رہی ہیں لیکن یہ بات ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ نواز شریف کو سزا سنائے جانے سے ملکی سیاست میں تلخی میں اضافہ ہوگا۔یہ فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا باعث بنے گا۔پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی’’ طنابیں ‘‘کھینچنے سے پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے مزید قریب ہو جائیگی میاں نواز شریف کی جیل یاترا بھی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی ماحول میں کشیدگی کا بناعث بنے گی جس سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو گا قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے میا ں شہباز شریف کو پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا کر پارلیمینٹ کا ماحول سازگار بنانے کی جو کوشش کی ہے اس کو شدید دھچکا لگا ہے اسی طرح نیب نے نواز شریف کیخلاف فلیگ شپ ریفرنس بنایا جو عدالت میں ثابت نہیں کر سکا اس کیس میں نواز شریف نے جتنی پیشیاں بھگتیں اور وکلاء پیش ہوتے رہے نواز شریف کی شہرت خراب کرنے کی کوشش کی جاتی رہی سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ اس کا حساب کون دے گا؟ نواز شریف پاکستان کے واحد وزیر اعظم ہیں جو تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے اور تیسری بار قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز قیادت کا خلا پورا کریں گے۔ اگر شریف خاندان کے تمام مردوں کو بھی جیل ڈال دیا گیا تو شریف خاندان کی خواتین پارٹی کی قیادت کے لئے سامنے آجائیں گی نواز شریف کو جیل میں ڈالنے اور آصف علی زرداری کو جیل بھجوانے کی تیاری سے اپوزیشن جماعتوں کا ’’گرینڈ الائنس ‘‘بننے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کو دیوار سے لگانے کی روش ملک گیر تحریک کو جنم دے سکتا ہے جب کبھی ملکی سیاست میں’’ گھٹن اور حبس ‘‘ ہوتا ہے تو لوگ ہوا کے تازہ جھونکے کے منتظر ہوتے ہیں مسلم لیگ ن پہلے ہی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لئے ریکویذیشن جمع کراچکی ہے جب کہ سینیٹ کا اجلاس بھی بلانے کیلئے ریکویذیشن جمع کرائی جا رہی ہے ایسا دکھائی دیتاہے آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ’’ میدان جنگ ‘‘ سجنے والا ہے ۔