لاہور (ویب ڈیسک) قومی اسمبلی ایک مزے کی جگہ لگتی ہے‘جہاں درجنوں ملزمان دھڑلے سے بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف کے بعد اب ان کے برخوردار حمزہ شہباز پبلک اکاؤنٹس پنجاب کے چیئرمین لگیں گے ۔ باپ بیٹا دونوں نیب کے ملزم ہیں۔آپ اسمبلی جاتے ہیں‘ تقریری مقابلہ سنتے ہیں اور حیران ہوتے رہتے ہیں کہ نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہماری قسمت میں یہ لاٹ لکھی گئی تھی۔ زرداری صاحب کھڑے ہو کر فخر سے بتاتے ہیں کہ میں ماضی میں بھی کرپشن پر جیل جاچکا ہوں، اب بھی جانے کو تیار ہوں۔ ان کا مطلب ہے کہ وہ عادی ہوچکے ہیں‘ آپ اپنی بات کریں‘جبکہ شہباز شریف‘ جن کے دس سالہ دور میں کرپشن نے نئے ریکارڈ قائم کیے ‘ ہمیں منصوبوں میں شفافیت پر لیکچر دیتے ہیں۔ زرداری اور شہباز شریف‘ دونوں جب فخر یہ انداز میں تقریریں کررہے ہوتے ہیں تو ان کی پارٹی کے لوگ ڈیسک بجاتے ہیں کہ واہ دیکھا ہمارا زرداری سب پر بھاری ۔ ڈٹ کر کرپشن بھی کی ہے، مان بھی رہا ہے۔ کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو۔ زرداری کا قصور نہیں‘ہر دفعہ طاقتور حلقوں نے انہیں بینظیر بھٹو کے ساتھ بارگین چپ کے طور پر استعمال کیا ۔ جب عدالتیں سزائیں دینے کے قریب آتیں تو فورا ًڈیل ہوجاتی تھی اور زرداری جیل سے باہر آکر وکٹری نشان بناتے نکل جاتے ۔ پہلے غلام اسحاق خان نے نواز شریف سے لڑائی میں زرداری صاحب کو جیل سے لا کر وزیر بنایا‘ دوسری دفعہ جنرل مشرف نے بینظیر اور زرداری کو ڈیل دی اور وہ اقتدار میں آئے۔جب زرداری اقتدار میں آئے تو انہوں نے نیب سے سب اصلی دستاویزات غائب کرا دیں ۔ عدالت نے فوٹو کاپیوں کو ماننے سے انکار کر دیا اور بری کر دیا‘ جبکہ دوسری طرف لندن سے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن المعروف جیمز بانڈ کو جنیوا بھیج کر ثبوتوں کے صندوق غائب کرادیے۔ یہی نواز شریف نے کیا۔ وہ بھی ہر دفعہ ڈیل لے کر سیاست کرتے رہے۔ جنرل مشرف نے انہیں باہر نکالا تو انہوں نے جنرل کیانی سے ڈیل کر کے اقتدار واپس لیا۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف نے درجنوں خفیہ ملاقاتیں جنرل کیانی سے کیں۔ اب پھر وہ جیل میں ہیں تو بھی ان پر مہربانیاں جاری ہیں۔ عام آدمی سوچ ہی نہیں سکتا کہ اسے ایسا انصاف ملے جو ان سیاستدانوں کی قسمت میں ہے۔ ان دونوں بھائیوں کو پھر کوئی اقتدار میں لے آئے گا ۔ جیل میں بیٹھے ان دونوں بھائیوں سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ عمران خان صاحب نے بھی جنرل شجاع پاشا سے خفیہ ملاقاتیں شروع کیں۔ جب تک وہ اقتدار سے دور تھے، فوج پر تنقید کرتے تھے۔ اب عمران خان کے نزدیک وہ بہت اچھی ہے جیسے کبھی زرداری اور شریفوں کے لیے اچھی تھی۔ سب سیاستدانوں کو علم تھا کہ کسی سپورٹ بغیر وہ اقتدار میں نہیں آسکتے تھے۔کسی ایک نے بھی ان خفیہ ملاقاتوں سے انکار نہیں کیا ۔ بینظیر بھٹو سے لے کر نواز شریف، شہباز شریف اور زرداری سے عمران خان صاحب تک سب خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے ۔ کسی ایک نے بھی جنرل علی قلی خان کی طرح خفیہ ملاقات سے انکار نہیں کیا ۔ جنرل قلی نے بتایا تھا کہ جب جنرل جہانگیر کرامت کے بعد نئے آرمی چیف کی تلاش شروع ہوئی تھی تو انہیں بھی انور زاہد کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف نے خفیہ ملاقات کی پیش کش کی تھی تاکہ چیک کریں انہیں آرمی چیف بنایا جائے یا نہیں۔ جنرل قلی نے خفیہ ملاقات سے انکار کیا تھا کہ بلانا ہے تو اوپن بلائیں۔ہمارے سیاستدانوں میں کوئی ایسا نہ تھا جو اس طرح خفیہ ملاقاتوں سے انکار کرتا‘ جیسے علی قلی نے نواز شریف سے ملنے سے انکار کر دیا تھا ۔ پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس نے ملک کی جمہوریت کو کنٹرول کرنا تھا ۔ کس نے حکم چلانا تھا اور کس نے ان احکامات پر عمل کرنا تھا ۔اب آپ کو پتہ چل رہا ہو گا کہ اس ملک میں ہر بندہ سیاست میں کیوں گھسنا چاہتا ہے؟ اگر خود نہیں گھس سکتا تو وہ کسی سیاستدان یا پارٹی کا اے ٹی ایم بن جاتا ہے۔ سیاست ایسا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔آپ جیل سے باہر ہوں تو بھی نعرے اور جیل چلے جائیں تو بھی سہولتیں ملتی ہیں ۔ اور کچھ نہیں تو آپ روزانہ قومی اسمبلی میں ان اداروں کو لتاڑو جنہوں نے مقدمے قائم کر رکھے ہیں ۔ ویسے کتنے عام پاکستانیوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ نیب یا ایف آ ئی اے کے خلاف سرعام قومی اسمبلی سے تقریریں کریں اور وہ براہ راست عوام کو دکھائی جائیں ۔ یہ سہولت آپ کو اس وقت میسر ہوتی ہے جب آپ خود طاقتور بن جائو یا پھر طاقتور کو دوست بنا لو۔ اگر دوست نہیں بن سکتے تو پھر اخراجات اٹھانا شروع کر دو۔ الیکشن کے دنوں میں جہاں لاکھوں روپوں کی نقدی الیکشن کے نام پر دے دو وہیں اس کو الیکشن مہم کے لیے گاڑیوں کا انتظام بھی کرا دو یا پھر پوسٹرز اور بینرز لگوا دو۔ یہ ایک طرح سے سرمایہ کاری ہے جو آپ کے کام آئے گی۔ آپ خود الیکشن جیت گئے ہیں تو پھر بلے بلے ہر طرف سے لکشمی کی بارش شروع ہوجائے گی۔ سیاستدانوں نے عوام کو اپنا فین بنانے اور قابو میں رکھنے کے لیے ایک اور کام کیا ہے۔ انہوں نے ضلعی افسران کو اپنا غلام بنا لیا ۔ تمام افسران کو حکم جاتا ہے کہ آئندہ استادوں کے ٹرانسفر پوسٹنگ صرف ایم این ایز کے ڈیرے سے ہوں گے۔کسی کو پٹواری سے کام ہے تو وہ ایم این اے یا ایم پی اے کی چٹھی لے کر ہی کرا سکتا ہے۔ کسی کو ضلع میں درجہ چہارم ہی کی نوکری چاہیے تو بھی ایم این اے اور ایم پی اے کے لیٹر پیڈ پر سفارش درکار ہو گی۔ تھانوں میں بھی ایس ایچ او انہی کی مرضی کا لگنا تھا ۔ اگر کوئی تھانے میں پکڑا گیا ہے تو بھی ایم این اے یا ایم پی اے کا لیٹر پیڈ چاہیے تھا ۔ کوئی ووٹر اہم تھا تو اس کیلئے فون تھانے جائے گا ۔ کسی پر ایف آئی ار بھی ان کے فون کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔ یوں پورا ضلع اور علاقہ ان کے قابو میں آگیا ۔ یوں دھیرے دھیرے لوگوں میں احساس ہواکہ اگر آپ نے مسائل سے بچنا ہے تو خود سیاستدان بن جائیں یا پھر ان کے ساتھ جڑ جائیں ۔ یوں قبائلی انداز میں سیاست نے معاشرے کو جکڑ لیا ہے۔ آپ اپنے قبیلے کی ہر قیمت پر سپورٹ کریں گے‘ چاہے اس نے کچھ بھی کر لیا ہو۔ آپ کی پہلی اور آخری وفاداری صرف اپنے قبیلے کے ساتھ ہے۔ آپ نے ہر صورت قبیلے کے سربراہ کا دفاع کرنا ہے چاہے اس نے ہزاروں بندے کیوں نہ مارے ہوں ۔ یہ قبائلی اپروچ آپ کو سیاست میں نظر آئے گی۔ جن لوگوں کے مفادات سیاستدانوں یا پھر حکومتوں یا پھر پارٹی سربراہوں کے ساتھ جڑ جاتے ہیںوہ ہر قیمت پر ان کا دفاع کرتے ہیں۔ یوں جہاں سیاستدانوں نے معاشرے کو جسمانی طور پر غلام بنایا وہیں انہوں نے ذہنی غلاموں کی بھی ایک بہت بڑی فوج پیدا کر دی جو ہر وقت ان کی کرپشن اور غلط کاموں کا ان کے کہے بغیر دفاع کرتی رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب آپ کسی کرپٹ کو سزا نہیں دے سکتے کیونکہ معاشرے میں موجود اس کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اس کے حق میں باہر نکل آتی ہے۔ ان کے نزدیک ان کے ہیرو یا سیاستدان نے جو کچھ بھی کیا ہے اس پر سوال ہوسکتا ہے نہ ہی اسے پکڑا جاسکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ ان کے خلاف تو بہت ثبوت ہیں تو جواب ملتا ہے اگر اس نے کرپشن کی ہے تو فلاں نے بھی تو کی ہے اسے کیوں نہیں پکڑا۔ یوں دھیرے دھیرے کرپٹ معاشرے نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنا شروع کر دی ہے۔ میں ایسے درجنوں اہم لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے سیاسی لیڈروں کی کرپشن پر نجی محفلوں میں بات کرتے ہیں‘ لیکن ٹی وی پر دفاع کرتے ہیں۔ اپنے ایک پائو گوشت کے لیے وہ سب کچھ دائو پر لگانے کو تیار ہیں ۔ یہ لوگ جو ٹی وی پر ایک دوسرے کا گربیان پھاڑ رہے ہوتے ہیں لڑ رہے ہوتے ہیں، وہ شو کے بریک میں قہقہے لگا کر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو کہہ رہے ہوتے ہیں یار مائنڈ نہ کرنا مجبوری ہے آپ تو میرے بھائی ہیں۔ یہ سب مل کر کھیل رہے ہوتے ہیں کہ تم اپنے حامیوں کو بیوقوف بنائو اور میں اپنے۔ یوں یہ تینوں اپنی اپنی جگہ زندگی انجوائے کررہے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں میں زہر بھر دیا گیا ہے جو ایک دوسرے کو گالی دیے بغیر بات نہیں کرسکتے۔ اگر گالیوںکے لیے شام کے ٹی وی شوز کا انتظار کرنا پڑتا تھا تو اب ٹوئیٹر نے یہ تکلف بھی ختم کردیا ہے۔سنگین الزامات کا سامنا کرتے ان سیاستدانوں کو اسمبلی میں دھواںدھار تقریریں کرتے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے چڑا رہے ہوں، کالیا کیا بگاڑ لیا تم نے ہمارا