لاہور (ویب ڈیسک) 2018ء کے انتخابات نے سب کچھ بدل دیا۔ زرداری اس امید میں رہے کہ نشانہ صرف شریف خاندان ہے۔ انھوں نے بلوچستان کی حکومت کی تبدیلی میں نادیدہ قوتوں کا ساتھ دیا، سینیٹ کی چیئرمین شپ تک گنوا دی۔تحریک انصاف نے کرپشن کو اپنا موضوع بنایا۔ عمران خان نے دس برس تک کرپشننامور کالم نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کے مسئلے کو رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے ہتھیارکے طور پر استعمال کیا۔ وہ خیبر پختون خوا، پنجاب اورکراچی میں رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوئے مگر حزب اختلاف کی خوش قسمتی یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان کے وزراء کرپشن کا نعرہ لگا کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر وفاقی کابینہ میں وزراء میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ سندھ میں فارورڈ بلاک بنانے اور اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کے پارلیمنٹ کے فیصلوں کو غیر منتخب اداروں میں چیلنج کرنے سے ایک مایوسی کی صورتحال ہے۔ پانچ ماہ کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل بیوروکریسی ملک کو چلا رہی ہے۔ تجاوزات کے خاتمے کے نام پر لاکھوں خاندان روزگار سے محروم ہیں ۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح بڑھنے سے عوام مایوس ہیں۔ وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا کا کوئی مستقبل نہیں۔ انگریز دور کے قوانین کو دوبارہ نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، سول سوسائٹی کو مفلوج کردیا گیا ہے۔ اختر مینگل نے جن 6 نکات کی بنیاد پر عمران خان کی حکومت کی حمایت کی تھی،ان نکات میں ایک اہم نکتہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا تھا مگر وفاقی حکومت نے اس نکتے پر اختر مینگل کو مایوس کیا ہے۔ اس وقت فوجی عدالتوں کی توسیع کا معاملہ اہم ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں شہباز شریف اور آصف زرداری اس توسیع کی حمایت کریں گے، یوں وہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش کریں گے۔ شاید اسی طرح انھیں کوئی ریلیف مل سکے گا۔ حکومت کی ناقص کارکردگی کی بنا پر حزب اختلاف کے لیے خاصی گنجائش نظر آتی ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ حزب اختلاف نادیدہ قوتوںکے ایجنڈے کو سنبھال لے، یہ ایک خطرناک صورتحال ہوگی۔ موجودہ حکومت کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں مگر مشکل صورتحال ان جماعتوں کو قریب لارہی ہے۔ ایک جماعت نے بھی الگ سے کوئی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی تو اتحادکمزور ہوجائے گا اور ماضی کی طرح اس کا فائدہ مقتدرہ کو ہوگا۔ دونوں جماعتوں کی قیادت کو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرنا چاہیے تاکہ عوام اس اتحاد کی پشت پناہی کریں۔ ڈیپ اسٹیٹ کا فلسفہ جمہوری نظام کو مفلوج کر رہا ہے۔ عوام کے لیے جدوجہد کرکے حقیقی جمہوری ریاست قائم ہوسکتی ہے مگر تبدیلی صرف انتخابات کے ذریعے ہونی چاہیے۔