لاہور (ویب ڈیسک) لو کو اُردو میں لکھنے میں بڑی احتیاط برتنی پڑتی ہے کہ ل کے ساتھ و کی جگہ کچھ اور نہ لگ جائے، اصل میں مجھے یہ کالم ”ویلنٹائن ڈے“ کے حوالے سے محبت پر لکھنا ہے جواب اُتنی خالص نہیں رہی جتنی کبھی ہوا کرتی تھی، جس کے نتیجے میں
صِرف ”ناکام محبت“ ہی ”کامیاب“ سمجھی جاتی تھی۔ ہماری ”لوک داستانوں“ ہیررانجھا، سسی پنوں، شریں فرہاد، سوہنی مہینوال کی ناکام محبتوں کو اب تک بڑا ”کامیاب“ سمجھاجاتا ہے، وہ بھی کوئی محبت ہے جِس کے نتیجے میں شادی ہو جائے۔ ایک لڑکی نے لڑکے سے کہا ”دس برس بیت گئے ہمیں پیار کرتے ہوئے، اب شادی نہ کرلیں؟“ ۔لڑکا بولا ” کیوں جی تُسی پیار مُکانا ایں؟(کیوں جی آپ نے پیار ختم کرنا ہے؟) ۔ پیار کی کئی قِسمیں ہوتی ہیں، ایک پیار شادی سے پہلے پہلے ہوکر ختم ہوجاتا ہے، دوسرا شادی کے فوراً بعد شروع ہوکر چند دِنوں میں ختم ہوجاتا ہے، کیوں کہ پھر بچے ہو جاتے ہیں اور بچے بعض اوقات پیار میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ایک اُستانی نے بچے سے پوچھا ” بیٹا آپ کے ابو کیا کرتے ہیں ؟۔ بچے نے بڑی معصومیت سے جواب دیا ”میڈم جی مجھے کیا پتہ، میں تو سو جاتا ہوں“۔ اِسی طرح ایک بچے کی آدھی رات کو آنکھ کُھل گئی تو امی سے شدید غصے میں اُس نے کہا ” اچھا، مجھے تو آپ انگوٹھا بھی نہیں چُوسنے دیتیں “ ….بہرحال صرف محبت ہی نہیں ہر چیز ہی ”دو نمبر“ ہوگئی ہے،
بلکہ میں تو سمجھتا ہوں ”دو نمبر“ کہنا ” دونمبری“ کے ساتھ زیادتی ہے، جیسے ہمارے ہاں کسی عام آدمی کے ساتھ کوئی ظلم یا زیادتی ہوتی ہے ہم اکثر کہتے ہیں ”یہاں جنگل کا قانون ہے“ ۔….حالانکہ جو کچھ ہمارے انسانوں کے معاشرے میں ہورہا ہے جنگل میں بھی نہیں ہوتا، جنگل کے قانون کو ہم نے ایسے ہی بدنام کیا ہوا ہے، یا یوں کہہ لیں اپنے قانون کو ”جنگل کے قانون“ سے ملانا، جنگل کے قانون کے ساتھ زیادتی ہے، شیر جنگ کا بادشاہ ہوتا ہے، وہ بھی اپنی حدود میں رہتا ہے، وہ لُوٹ مار نہیں کرتا، وہ بیمار ہو جائے سرکاری خرچے پر اپنے علاج کے لیے برطانیہ یا امریکہ نہیں جاتا، وہ بینکوں سے اربوں کھربوں روپے کا قرضہ لیتا ہے نہ کسی کا قرضہ معاف کرنے کا اُس کے پاس اختیار ہوتا ہے، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کِسی روز جنگل کے تمام جانور اکٹھے ہوکر شہروں کا رُخ نہ کرلیں اور یہاں آکر عوام کے سامنے احتجاج کریں کہ آپ نے کیوں خوامخواہ ہمارے قانون کو بدنام کیا ہوا ہے؟“…. خیر میں ”دونمبری“ کی بات کررہا تھا۔ میرے خیال میں ”دونمبر“ نقل بمطابق اصل ہے، کیونکہ ملاوٹ خصوصاً سوچ اور محبت میں ملاوٹ کا معاملہ اب ”سونمبر“ تک پہنچا ہوا ہے، مجھے کوئی یہ کہے
”فلاں چیز دونمبر ہے یا فلاں شخص دو نمبر ہے، میں اُسے زیادہ بُرا نہیں سمجھتا، بلکہ اپنے جیسا سمجھتا ہوں، ہاں اگر منافقت ، جھوٹ اور کمینگی اور اِس طرح کی دوسری خرابیوں میں کوئی ”سونمبر“ تک پہنچا ہوا ہے، اُس کا کوئی ایک عمل قابلِ تعریف نہیں تو ایسے شخص کو خود سے زیادہ بُرا سمجھنے میں، میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، بلکہ اُسے بُرا کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتا ، بس یہ ہے کہ اُس کی خرابی تنہائی میں اُس کے سامنے بیان کردیتا ہوں اور اِس کے ساتھ ساتھ خود میں یہ حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہوں کہ میری خرابی بھی میرے سامنے کوئی بیان کرے میں اُسے بُرا نہ سمجھوں۔ ہمارے ہاں تو ایسا کرنے والے کے لوگ اب جانی دُشمن بن جاتے ہیں، میرے نزدیک ”پیٹھ پیچھے بُرائی ”کِسی بھی حوالے سے اچھی بات نہیں ہوتی، یہ میں اپنے میانوالی، تونسہ شریف اور کے پی کے، کے اکثر دوستوں کو سمجھاتا ہوں جو پیٹھ پیچھے بُرائی کو خرابی نہیں باقاعدہ ”اسٹیٹس سمبل“ سمجھتے ہیں، یا یوں کہہ لیں باقاعدہ ”کارِ ثواب“ سمجھتے ہیں، …. جہاں تک محبت کے خالص ہونے کا تعلق ہے یہ کہانیاں اب ہمیں صِرف کتابوں میں ہی مِلتی ہیں اور کتابوں سے ہماری محبت بھی اب ایسی ہی ہوگئی ہے
جیسی رشتوں سے ہوگئی ہے، اگلے روز میں کہیں پڑھ رہا تھا ” درختوں سے پیار کریں“ میں سوچ رہا تھا جتنا پیار ہم درختوں کے پیچھے کرتے ہیں اُتنا کبھی درختوں سے کریں پورا ملک ”گل وگلزار“ بن جائے۔ اور ہمارے حکمرانوں وغیرہ کو یہ جھوٹ بولنے یا یہ بڑھک لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو کہ ”ہم اِس ملک کو گل وگلزاربنادیں گے“۔…. یا پھر یہ ملک صِرف اِسی صورت میں گُل وگلزار بن سکتا ہے کہ ہمارے کسی آرمی چیف کا نام ”گُل “ ہو اور وزیراعظم کا ”گلزار“ ہو، جیسے ہمارے ایف سی کالج میں ایک لڑکی کا نام ”عینی“ تھا، اُس کی شاہد نام کے ایک شخص سے شادی ہوگئی۔ اب اُس کا نام ”عینی شاہد “ ہے۔ کچھ نام بڑے رحمت والے ہوتے ہیں اور کچھ بعض اوقات باعثِ تکلیف بن جاتے ہیں، ہمارے ایک شاعر ہوا کرتے تھے حیات احمد خان، …. وہ جب مشاعروں میں اپنا کلام سناتے لوگ اُنہیں داد دینے کے لیے باآواز بلند جب یہ کہتے ”واہ حیات صاحب …. واہ حیات صاحب “ تو وہ یہ سمجھتے لوگ اُنہیں ”واہیات صاحب ، واہیات صاحب“ کہہ رہے ہیں، جِس پر اپنی طرف سے وہ اپنی زیادہ اچھی شاعری سنانے کی کوشش کرتے مگر داد اِس کے باوجود اُنہیں اُنہی الفاظ سے مِلتی
جو اُن کے لیے ریلیف کے بجائے تکلیف کا باعث بن جاتے۔ کلیم عثمانی بہت بڑے شاعر تھے۔ اُن کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اُنہوں نے حضرت احسان دانش سے پوچھا اُس کا نام کیا رکھوں؟ احسان دانش نے فرمایا اُس کا نام ”ضربِ کلیم“ رکھ دیں جوکہ میرے خیال میں اُنہوں نے نہیں رکھا تھا، رکھنا بھی نہیں چاہیے تھا …. بات محبت کی کرتا ہوں، اور وہ کہاں کی کہاں نکل جاتی ہے، جیسے بعض اوقات محبت بھی کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے اور انسان کو اُس وقت پتہ چلتا ہے جب شادی ہو چکی ہوتی ہے یا جب شادی کرنی پڑ جاتی ہے، …. ہمارے ایک دوست کی پچھلے دنوں شادی ہوئی، یہ ”ارینج میرج“ تھی جِس کا رحجان ہمارے ہاں اب ہوتا جارہا ہے کیونکہ محبت کی شادیوں میں شادی کے بعد کچھ کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا ، …. اپنے اِس دوست کی رسم ولیمہ میں، میں شادی ہال میں اسٹیج پر ہی بیٹھا تھا۔ اچانک دلہن کا والد آکر سٹیج پر دلہے کے ساتھ بیٹھ گیا اور بڑے پیار سے اُس سے پوچھنے لگا ”پُتر جی کی حال اے ؟“ …. دلہے نے بُرا سا منہ بنایا اور بولا ” چاچا تہاڈے ول تے ہن سکون اے ناں ؟؟