لاہور (ویب ڈیسک)قارئین! سانحہ ساہیوال پر مسلسل تیسرا کالم پیش نظر ہے۔ لفظ لفظ… لہو لہو…حرف حرف… ہے آبلہ… جے۔آئی۔ٹی کی روایت کے مطابق تحقیقات جاری ہیں جبکہ سی ٹی ڈی کے سربراہ سمیت دیگر چند افسران کو عہدوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ آئی جی کی تبدیلی کے امکان کو نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ وزیرِ قانون راجہ بشارت پہلے ہی ردّ کر چکے ہیں۔ یہاں بھی وہی قصہ پرانا نکلا ۔۔۔ حاکمِ شہر کا منصف سے یارانہ نکلا ۔۔ آئی جی کے بجائے ایڈیشنل آئی جی آپریشنز اظہر حمید کھوکھر کو وفاق روانہ کر کے ”ردّ بلا‘‘ کے لیے آئی جی کا صدقہ اُتارا جا چکا ہے اور پسماندہ خاندانوں کو سزا دی جا چکی ہے… خصوصاً سی ٹی ڈی کی بربریت کا براہ راست نشانہ بننے والے خلیل کے تینوں بچے، ذیشان کی معذور ماں کے علاوہ بیٹی اور بیوہ کی تا حیات سزا عذابِ مسلسل کے ساتھ شرو ع ہو چکی ہے۔ نہ جانے کون سے ”طوطے‘‘ سے فال نکلوا کر ایڈیشنل آئی جی آپریشنز کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ حکومتی اقدام نہ صرف تعجب خیز ہے بلکہ ”گیہوں کے ساتھ گھن‘‘ پِسنے کی روایت کا تسلسل بھی ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں گھن کے بغیر گندم نہ پیسنے کا رواج ہے اور نہ ہی کوئی روایت۔ ایسا ہی کچھ ایڈیشنل آئی جی اظہر حمید کھوکھر کے ساتھ ہوا ہے۔ سانحہ ساہیوال سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کا کوئی تعلق یا کردار تو دور کی بات اس کا امکان بھی بعید از قیاس ہے۔خیر محلاتی معاملات بھی تو کسی سسٹم کا حصہ ہیں اور سسٹم کو ”رواں دواں‘‘ رکھنے کیلئے ان کا سہارا لیا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں… واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی چارج سنبھالتے ہی اظہر حمید کھوکھر کو اسٹیبلشمنٹ سے آپریشنز میں ٹرانسفر کروا کے اپنی ذاتی رائے کا اظہار پہلے ہی کر چکے ہیں اور ”نادر موقع‘‘ سے فائدہ نہ اٹھانا ”کفرانِ نعمت‘‘ سے کم نہ تھا۔ تاہم براہِ راست ذمہ دار افسر کو ایس اینڈ جی اے ڈی رپورٹ کرنے کا حکم، اور غیر متعلقہ افسر کو صوبہ بدر… آفرین ہے۔ تعجب ہے… سانحہ ساہیوال پر آئی جی پنجاب نے بذریعہ پریس ریلیز جو منظر کشی کی تھی‘ اس کا جواب اور جواز فراہم کرنے سے تاحال قاصر ہیں۔ گمراہ کن اور ”من گھڑت‘‘ کہانی بنا کر اس سانحہ کو دہشت گردی کے خلاف بڑی کارروائی قرار دینے کا ”کریڈٹ‘‘ لینے والے کس اخلاقی جواز کے ساتھ موجود صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس سانحہ پر ”پوائنٹ سکورنگ‘‘ کا میچ جاری ہے۔ اپوزیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں سمیت ہر جگہ اس سانحہ کی مذمت اور حکومت نااہلی کا ڈھول پیٹ رہی ہے‘ جبکہ حکومتی عہدیدار سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ”جواب آں غزل‘‘ کے طور پر استعمال کر کے دفاع میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔دونوں کی ”تو تو…میں میں‘‘ جاری ہے۔ متاثرہ خاندان سے ہمدردی اور ان کی داد رسی کا کوئی عملی مظاہرہ کیے بغیر اس سانحہ پر سیاست دونوں اطراف کے لیے قابلِ فکر ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی نعیم الحق، وزیر قانون راجہ بشارت سے بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ راجہ بشارت نے اپنی پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا اس کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کا صوبائی وزیر قانون کی پریس کانفرنس پر عدمِ اعتماد اور اظہارِ تحفظات کو مسلم لیگ (ق) سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ ”دور کی کوڑی‘‘ لانے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ راجہ بشارت الیکشن تو تحریک انصاف کے ٹکٹ سے جیتے ہیں لیکن ان کی ہمدردیاں اور وفا داریاں تاحال (ق) لیگ سے ہی وابستہ ہیں۔ اگر تحریک انصاف ان کے کسی بیانیے اور پریس کانفرنس کو اپنے ویژن اور پالیسی سے متصادم سمجھتی ہے تو سوال یہ ہے کہ راجہ بشارت کس ایجنڈے اور کس کے کہنے پر یہ سب کر رہے ہیں؟ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مشیر اکرم چوہدری نے سینئر صحافیوں اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق کے مابین ”گپ شپ‘‘ کا اہتمام کیا۔اس غیر رسمی بیٹھک میں گورنر پنجاب چوہدری سرور اور عثمان ڈار بھی شریک تھے۔ نعیم الحق ”حکومتی فضائل‘‘ بیان کر رہے تھے کہ اچانک سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سانحہ ساہیوال پر کیے جانے والے سوالات کا جواب دینا ان کے لیے ایک مشکل اور دشوار مرحلہ ثابت ہوا۔ وہ اس سانحہ پر حکومتی مؤقف کچھ اس طرح بیان کر رہے تھے جیسے ”جسم کے اس مقام پر بے تحاشہ کھجایا جائے جہاں خارش ہی نہ ہو رہی ہو‘‘۔ اس موقع پر خاکسار کے چند سوالات ان پر انتہائی بھاری گزرے اور ایسی صورتحال پیدا ہو گئی گویا ”شاید مجھے بلا کر… پچھتا رہے ہوں آپ…‘‘۔تحریک انصاف کی وفاقی ٹیم ہو یا صوبائی‘ سانحہ ساہیوال پر سبھی لا جواب اور بے اختیار نظر آتے ہیں‘ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کے بیان کی نفی کا مقابلہ بھی زور و شور سے جاری ہے۔ نتیجہ یہ کہ وزرا کے بیانات اور تضادات نے اس سانحہ کو حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا ہے‘ جبکہ تھوڑی سی احتیاط اور عقل کا استعمال کر لیا جاتا تو حکومت اس سانحہ کو بہت انداز میں ہینڈل کر سکتی تھی۔ محکمہ پولیس میں ریفارمز اور انقلابی اقدامات کے دعوے تو نا جانے کب پورے ہوں گے… ہوں گے بھی یا نہیں ہوں گے… فی الحال فوری نوعیت کے فیصلے ہنگامی بنیادوں پر کرنا ہوں گے۔ لا اینڈ آرڈر کے ساتھ ساتھ پولیس فورس کی مانیٹرنگ اور ڈسپلن کا معاملہ بھی انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ایسے میں مضبوط اعصاب اور ”پروفیشنل اپروچ‘‘ کے حامل کرائم فائٹر افسران کا انتخاب کرنا ہو گا۔ مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے سیاست اور پسند‘ ناپسند سے بالا تر ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ ماضی میں حکومت کی سُبکی اور شرمندگی کا باعث بننے والے عناصر تاحال متحرک ہیں‘ چنانچہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ان مصلحتوں اور مجبوریوں سے ماورا اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے حالیہ کالموں میں کافی تفصیل سے بات ہو چکی ہے۔ صوبائی دارالحکومت ہی لے لیجئے لا اینڈ آرڈر اور گورننس‘ دونوں ہی خصوصی توجہ کے طلب گار ہیں