سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دو روزہ دورے پر کل اسلام آباد تشریف لارہے ہیں۔ ان کا یہ دورہ پاکستان اور اس کے قومی سلامتی کے اداروں کے حامیوں اور مخالفین کی نظروں میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے ۔شاہ فیصل سے اب تک سعودی عرب کے ہر حکمران نے ہر اچھے اور برے وقت میں پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا ہے ۔گذشتہ چند سالوں سے ہمارے حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور تعلقات کی بنا پر سعودی عرب سے کچھ نا منا سب سی توقعات پوری نہ ہونے سے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی تھی‘ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ حکمران‘ جو اب قصۂ ماضی بن چکے ہیں سعودی دوستوں کے بار بار سمجھانے کے با وجود اپنے ہی ملک کی مسلح افواج کے خلاف سازشوں اور دنیا بھر میں ان کے خلاف نفرت پھیلانے سے باز نہیں آ رہے تھے۔ سعودی عرب کے دوست نہیں چاہتے تھے کہ وہ کسی ایسی سیاسی قوت سے اپنا قریبی تعلق بنائے رکھیں جو پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کو کمزور کرنے میں مصروف عمل ہو۔ دو برس قبل جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھارت میں اپنی اپنی حکومتوں کی جانب سے دو آئل ریفائنریاں لگانے کے معاہدوں پر دستخط ہو رہے تھے تو اس وقت اپنے ایک مضمون میں افسوس اور دلی خواہش ظاہر کرتے ہوئے دعا کی تھی کہ کاش یہ آئل ریفائنریاں ہمارے یہ عرب بھائی پاکستان میں بھی لگاتے تو دنیا کی اس واحد اسلامی ایٹمی قوت کی معیشت اور حیثیت محفوظ اور مضبوط ہو جاتی
جس پر عالمِ اسلام کا ہر بہی خواہ فخر محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سعودی اور امارات کے حکمرانوں اور عوام کے لیے قربانی ایثار اور محبت کا جو جذبہ پاکستان اور پاکستانیوں کے دلوں میں موجزن رہتا ہے اس کی گواہی ایک عالم دیتا ہے‘ اسی لئے پاکستان میں عرب بھائیوں کے سرمائے کی ایک ایک اینٹ ان کے لیے کسی مضبوط قلعے سے بھی بڑھ کر ہو گی ۔ پاکستان میں کم ازکم نوے فیصد سے زائد لوگ‘ سوائے چند نام نہاد لبرل اور ترقی پسندی کے کھوکھلے دعوے کرنے والوں کے‘ اپنے معزز ترین دوستوں اور مہمانوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے ہیں ۔ ایک طویل مدت کے بعد حرمین شریفین سے آنے والے سعودی حکمران اپنے پورے پیار اور محبت سے لبریز جذبوں سمیت ہم پاکستانیوں سے گلے مل رہے ہیں۔ سعودی عرب کے پاکستان پر احسانات نہ بھولنے والے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کی اپنے ہی ملک سے کی جانے والی لوٹ مار اور بین الاقوامی تعلقات کو نبھانے میں کی گئی بار بار کی غلطیوں کے با وجود ان کی جانب سے بھر پور مدد اور تعاون شامل رہا ہے ۔26 جنوری 2017ء کو بھارت جب اپنا 68 واں یومِ جمہوریہ منا رہا تھا تو نریندر مودی نے اس دن کی منا سبت سے نئی دہلی کی پریڈ گرائونڈ کے مہمان خصوصی کے طور پر عرب امارات کے کرائون پرنس کو مدعو کر رکھا تھا‘
لیکن نریندر مودی کی تمام تر توجہ امارات کے کرائون پرنس کی بجائے امریکی پینٹاگان سے آئے ہوئے لوگوں کی جانب مرکوز رہی‘ جسے کرائون پرنس کے علا وہ بھارت کے صدر پرناب مکھر جی نے بھی بری طرح محسوس کیا‘ بلکہ بھارت کے صدر پرناب مکھر جی نے تو نریندر مودی کی اس لاا بالی اور گھٹیا حرکت پر اس کے نام لکھے گئے اپنے خط میں سخت غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم ہائوس نئی دہلی کو اپنے نا مناسب اور سفارتی آداب کے منا فی رویہ پر معزز مہمان سے فوری طور پر معذرت کرنے کا کہا۔ دوسری جانب مہمانداری اور سفارتی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے اپنے گھر آئے ہوئے کسی بھی مہمان کے لیے ہمیشہ دیدہ و دل و فرش راہ کر کے اس کا استقبال کیا ہے‘ جس کی ایک جھلک متحدہ عرب امارات کے کرائون پرنس نے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران خود دیکھی جب وزیر اعظم عمران خان نے تمام سفارتی تکلفات کو ایک جانب رکھتے ہوئے خود ان کی گاڑی ڈرائیو کی۔ 26 جنوری 2017 ء کو بھارت کے 68ویں یوم جمہوریہ کے موقع پرنریندر مودی جب نئی دہلی کی اس پریڈ میں خصوصی طور پر اپنے ہاں بلائے گئے معزز مہمان کو رسمی اہمیت دینے سے اس کے با وجود اجتناب کر رہے تھے‘
جو بھارت میں آئل ریفائنریوں سمیت انرجی کے مختلف شعبوں میں 75 بلین ڈالر انویسٹ کر نے کے لیے کئی مبع مص ایم او یوز پر اپنے وفد کے ہمراہ دستخط کرنے جا رہے تھے تو اس کی یہ قبیح حرکت صرف امارات کے شہریوں کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی ناپسندیدہ تھی ۔ پاکستان ہمیشہ سے اپنے مسلم بھائیوں اور عرب ریا ستوں سے درخواست کرتا چلا آ رہا ہے کہ آپ کے حسب نسب کے ساتھ جڑے ہوئے مذہب کو نفرت اور نخوت سے دیکھنے والے نریندر مودی جیسے انتہا پسند ہندو کے دل میں مسلمانوں کے لیے عزت اور احترام ہو ہی نہیں سکتا وہ تو فقط دنیا کو دکھانے اور تارکین وطن کے نام سے اپنا مطلب نکالنے کے لیے عرب حکمرانوں کی تعظیم پر مجبور ہے ورنہ مسجد وںکے میناروں کے خلاف ان کی کدورت اور نفرت جاننے کے لیے کہیں دور کی جانے کی ضرورت ہی نہیں ابھی چند دن پہلے حیدر آباد کی تاریخی مسجد کو جس طرح زمین بوس کرنے کے بعد وہاں موجود نمازیوں کے ساتھ جس قسم کا بہیمانہ سلوک کیا گیا اسے دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی اور پھر تاریخی بابری مسجد کا نریندر مودی کے ہاتھوں انہدام بھی سب کے سامنے ہے ۔گائے کے گوشت کے نام پر مسلمانوں کی بھارت میں اسی طرح کھال کھینچی جا رہی ہے جس طرح گائے کو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال کھینچی جاتی ہے ۔
دنیا بھر میں موجود عرب شہریوں اور ان کے حکمرانوں کے لیے جو دلی عزت و احترام ان کے برادر مسلم ملک پاکستان کے دل میں ہے وہ جنونی انتہا پسند مہاسبائی ہندئوں کے دلوں میں ہو ہی نہیں سکتا۔یہی وہ نقطہ ہے جو قران میں بھی کھل کر بیان کر دیا گیا ہے لیکن نہ جانے ہمارے کچھ عرب بھائی بھارت سے مرعوب ہو کر اس کے آگے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہوتے ہیں؟ بھارتی یوم جمہوریہ کی پریڈ کے موقع پر امارات کا فوجی بینڈ جب اپنی خوبصورت فوجی دھنوں پر بھارتی فوج کا قومی ترانہ گا رہا تھا اور بھارتی فوج کے چھوٹے بڑے افسران سمیت اراکینِ پارلیمنٹ زبردست تالیاں بجاتے ہوئے اسے داد دے رہے تھے ‘لیکن وہ خاص بات جو دیکھنے والے اس وقت بھی محسوس کر رہے تھے کسی سے بھی پوشیدہ نہ رہ سکی کہ اپنی نشست سے اٹھ اٹھ کر امارات کے فوجی بینڈ کی بجائی گئی ان دھنوں پر تالیاں بجانے والے نریندر مودی کے چہرے پر کچھ اس قسم کا تمسخرانہ انداز تھا جیسے کوئی فاتح مفتوح کی کسمپرسی سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔شاہ فیصل سے شاہ عبد اﷲ اور شاہ سلمان سے محمد بن سلمان اورمتحدہ عرب امارات کے بانی اور عالم اسلام کے ہر دلعزیز رہنما شیخ زید بن سلطان النہیان مرحوم نے جس قدر پیار اور محبت پاکستانیوں سے روا رکھا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور پاکستان کے لوگ آج بھی ان کا نام انتہائی عزت و احترام سے لیتے ہیں ۔شیخ زید بن سلطان النہیان ایک عوامی صدر تھے اور جب امارات تعمیر ہو رہا تھا تو وہ سخت ترین گرمی میں مختلف سڑکوں اور عمارتوں پر کام کرنے والے پاکستانیوں سے گھل مل جاتے تھے‘ ان کا خیال رکھتے اور یہ تو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ مرحوم شاہ فیصل اور شیخ زید پاکستان کو ہمیشہ اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے ۔ خوش آمدید‘ مرحبا محمد بن سلمان …!