لاہور (ویب ڈیسک) کنفیوژن یہ ہے کہ معاملہ مانگ تانگ اور ادھار سے کب تک چلے گا؟ دگرگوں معاشی حالات کا حقیقی حل کیا ہے؟ گزشتہ حکومت کے درجنوں ترقیاتی منصوبوں سمیت بجلی بنانے کے پلان بھی روک دئیے گئے سب باتیں چھوڑیں مگر یہ تو واضح کر دیں کہ سردیوں میں گیس نہ ہونے پر نامور کالم نگار آصف علی بھٹٰی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ٹھٹھر کر لحافوں سے گزارہ کرنے والے بے بس عوام کو کیا آئندہ گرمیوں میں ٹھنڈے پسینے پر صبر و شکر کرنا پڑے گا یا لوڈشیڈنگ کے بچائو کی کچھ تدابیر کر رہے ہیں؟ یہی وہ کنفیوژن ہے جس کو دور کوئی نہیں کر رہا۔ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں کا وعدہ تو جانے کب ایفا ہوگا لیکن کوئی تو اس گتھی کو سلجھائے کہ لاکھوں بیروزگار اور تجاوزات کے نام پر بے گھر ہونے والوں کو اب آباد کون اور کب کرے گا؟ بقول خواجہ آصف ترقی کی شرح ساڑھے چھ سے گر کر ساڑھے تین پر آنے سے سالانہ 7لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے، اس کنفیوژن کو حکومت دور نہیں کرے گی تو کون کرےگا؟خدا خدا کرکے حکومت اپوزیشن کی مارا ماری کے بعد چیئرمین پی اے سی اور کمیٹیوں کا معاملہ حل ہوا لیکن فوجی عدالتوں میں توسیع سمیت قانون سازی کے معاملات جوں کے توں ہیں، سیاسی محاذ آرائی کا ماحول پارلیمنٹ کے ایوانوں کو مسلسل پراگندہ کر رہا ہے۔ شاید عوام کو مزید کنفیوژ کیا جا رہا ہے کہ وہ سیاست کے اسچال چلن کو دیکھ کر جمہوریت سے توبہ کر لیں۔ کرپشن کےخلاف نعروں اور ایکشنز پر بھی کنفیوژن بڑھتی جا رہی ہے، دو بڑی جماعتوں کے سربراہوں اور اہم قائدین کےخلاف کرپشن کے سنگین الزامات پر کارروائیاں جاری ہیں لیکن بیماریوں اور تکلیفوں کی خبروں سے محض کنفیوژن ہی نہیں، ڈیل کا تاثر بھی پیدا کیا جا رہا ہے جس کا ممکنہ کلیدی کردار اور سہولت کار چھوٹا بھائی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پہلے چھوٹے میاں اور پھر بڑے میاں بیماری کے علاج اور خاطر خواہ خفیہ ادائیگیوں کے بعد بیرون ملک جانے والے ہیں، چھوٹے بھائی کے بیٹوں اور داماد کو حالیہ ریلیف دینا اس کا غماز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بڑے بھائی اور تیمارداری کے لئے بیٹی کا باہر جانا بھی ٹھہر گیا ہے۔ سیاست میں سب پہ بھاری شخصیت کی اہم کیسز میں عدم گرفتاری اور ای سی ایل سے نام نکالا جانا بھی معاملات طے ہونے کی طرف اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ پتا نہیں خان صاحب کی ’’کوئی این آر او نہیں ملےگا‘‘ کی دھمکیوں اور ملک لوٹنے والوں کو اندر کرنے کی گردان پر کوئی یقین کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ پتا نہیں کیوں سیاسی افق پر اس قسم کی افواہوں سے پھیلنے والی کنفیوژن کو کوئی ٹھوس اقدامات سے دور نہیں کر رہا ہے، تاہم طاقتور حلقوں میں یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ حکومت کی نااہلی سے پھیلنے والی کنفیوژن کا ماحول اب مزید چلنے والا نہیں!دوسری طرف بھی لگتا ہے مسٹر خان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے لیکن شاید اس میں ابھی ایک دو ماہ باقی ہیں، اگر انہوں نے اندرونی معاملات کو ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ایکشن از خود نہ لیے اور مسلط کردہ وسیم اکرموں اور انضماموں سے جان نہ چھڑائی تو معاملات ہاتھ سے نکل بھی سکتےہیں جو اس کنفیوژڈ کہانی کے ڈراپ سین کا سبب بن سکتے ہیں۔