”لاہور (ویب ڈیسک) سردار عثمان بزدار کو تو صحیح طریقے سے بولنا بھی نہیں آتا ان کی شخصیت با رعب نہیں ہے۔وہ آئی جی پنجاب ‘ صوبے کے سیکرٹریز اور چیف سیکرٹری سے مرعوب رہتے ہیں‘ انہیں کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار ہی نہیں‘‘ یہ ہیں وہ اعتراضات جو پی پی پی اور نون لیگ سمیت ان کے اتحادیوں کی نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جانب سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ پر کئے جاتے ہیں ۔مگرماضی کی مثالیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی تو نہیں‘ سب جانتے ہیں کہ میاںنواز شریف گورنر جیلانی کے دور میںجب پنجاب کے وزیر خزانہ مقرر کئے گئے تو انہیں اپنے سٹاف اور سیکرٹری خزانہ سمیت دوسری بیوروکریسی سے صحیح طریقے سے بات کرنا نہیں آتی تھی اور جب وہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے گئے تو انہوں نے اپنے پہلی اور دوسری وزارت اعلیٰ کے دور ان اپنے تمام افسران کو جو چاہو کرو کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی‘ لیکن ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ میرے کسی بھی کام میں آپ نے کوئی مداخلت نہیں کر نی۔ یہی وجہ ہے کہ دس ہزار سے زائد نائب تحصیلدار‘ اے ایس آئی ‘ سب انسپکٹر ا‘ انسپکٹر‘ ایکسائز انسپکٹر‘ پولیس کانسٹیبل‘ فوڈ انسپکٹر اور نہ جانے اور کتنے منافع بخش محکموں میں‘گھروں میں بیٹھے ہوئوں کو ہر قسم کی رعاتیں دیتے ہوئے اراکین قومی اور پنجاب اسمبلی کو دیئے گئے کوٹے پر بھرتی کیا گیا اور آج یہی لوگ اچھے عہدوں پر فائز ان کیلئے کام کر رہے ہیں۔ کیا یہ طریقہ کسی بھی آئین اور قانون کے تحت جائز تھا؟میاں صاحب کی عادت تھی کہ جس سی ایس پی افسر نے ان کے کسی کام پر اعتراض کیا یا اس کی شکل پسند نہ آئی اسے اسی وقت گھر بٹھا دیا جاتا۔فیصل آباد میں مغل شہنشاہوں کی طرح کھلی کچہری لگا کر ایک اعلیٰ افسر کے خلاف اپنے ایک بد نام زمانہ ایم این اے کی شکایت پر اسی وقت بھرے مجمع میں اس اعلیٰ افسر کو ہتھکڑیاں لگا کر فیصل آباد میں گھماتے ہوئے اس وقت کے واحد ٹی وی چینل پی ٹی وی پر بار بار دکھایا گیا‘ کیا یہ کسی قانون میں جائز تھا؟کیا ہمارا میڈیاوزارت اعلیٰ کیلئے اس معیار کا متلاشی ہے؟ 6 اگست 1990 ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت گراتے ہوئے نئے انتخابات کیلئے جب تمام اسمبلیاں توڑی گئیں تو غلام حیدر وائیں مرحوم کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا جو میاں شہباز شریف کے سامنے اس طرح کھڑے ہوتے تھے جس طرح ان کی فیکٹری کا کوئی منیجر بھی کھڑا نہ ہوتا تھا۔ تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں‘ یہ لطیفہ نہیں بلکہ سچا واقعہ ہے کہ میاں چنوں کے مہر صاحب کے نام سے جانے جانے والے ان کے ایک سر گرم سپورٹر نے انہیں اپنے کسی ذاتی کام کیلئے درخواست دی‘ کوئی دس دن انتظار کرنے کے بعد وہ شخص دوبارہ ان کے پاس گیاجس پر وائیں مرحوم نے اسے کچھ دن مزید انتظار کرنے کو کہا۔ اس طرح کوئی ایک ماہ گزر گیا‘ تنگ آ کر وہ شخص غصے سے بولا: وائیں صاحب آپ وزیر اعلیٰ ہیں ‘آپ کیلئے کیا مشکل ہے اور یہ کوئی ناجائز کام بھی نہیں بلکہ میرا حق ہے۔غلام حیدر وائیں مرحوم نے اپنی واسکٹ کی جیب سے اس کی درخواست نکالی اور کہنے لگے: مہر صاحب بس شہباز شریف کے موڈ کا انتظار کر رہا ہوں‘ جس دن ان کا موڈ اچھا ہوا تمہاری درخواست ان کے سامنے رکھ دوں گا۔ بھنگ کے نشے میں رہنے والا شخص کئی سال سندھ کا وزیر اعلیٰ رہا اور ان کی اس عادت اور شغل کے متعلق سندھ کے وزیر اعلیٰ ہائوس کا تمام عملہ اور پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا میڈیا چینل با خبر ہے۔ اور یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ پاکستان بھر کا الیکٹرانک میڈیا بار بار اس پر پروگرام نشر کرتا رہا ہے۔ سندھ کے اس وزیر اعلیٰ کو ایم کیو ایم کی جانب سے غلام حیدر وائیں ٹو بھی کہا جاتا تھا۔ وہ تھے تو وزیر اعلیٰ لیکن ان کی کیا جرأت کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے بغیر اچھے طریقے سے سانس بھی لیتے۔ آج کل ان کی سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو چکی ہےجس میں بلاول بھٹو اور اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے‘ لیکن بلاول بھٹو سے خوف اور گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ پہنی ہوئی جرسی کا اوپر والا بٹن نیچے اور نیچے والا اوپر کی جانب بند کیا ہوا صاف نظر آرہا ہے۔ ان کی وزارت اعلیٰ میں سندھ کا جو حال ہوا اس کی ذمہ داری وہ اپنی نجی گفتگو میں محترمہ فریال تالپور اور خورشید شاہ پر ڈالتے ہیں۔ پی پی پی جب عثمان بزدار پر تنقید کرتی ہے تو نہ جانے اسے اپنی آنکھ کا شہتیر کیوں نظر نہیں آتا؟ جب ان کا وزیر اعلیٰ سندھ کابینہ کے اجلاس میں سو جایا کرتا تھا اور رہی سندھ میں امن و امان اور گورننس کی صورتحال تو اس کیلئے ایک طویل رجسٹر چاہئے‘ جو اس طرح کا ہے کہ پی پی پی کا میڈیا سنتا جا ئے شرماتا جا ئے‘ لیکن پھر بھی ٹی وی چینلز کے ذریعے اپنی پاک دامنی کے قصے اس طرح سناتے ہیں کہ گوئبلز جیسے جھوٹے بھی شرما رہے ہیں ۔ کیا وزیر اعلیٰ کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اداکار ہو؟ کیا پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے اولین شرط یہ ہونی چاہئے کہ اپنے سامنے رکھے ٹی وی چینلز کے مائیک مکے مارتے ہوئے توڑے جائیں؟کیا وزارت اعلیٰ جیسے منصب پر فائز شخص کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک آئی جی پنجاب‘ جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں‘ کو” اوئے ‘‘ کہہ کر پکارے؟ (میں اس منظر کا گواہ ہوں)۔کیا کسی نرم دل اور شرافت کے پیکر کی بجائے کسی چنگیز خان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہونا چاہئے؟ کون نہیں جانتا کہ سات کلب روڈ پر ایک میٹنگ میں ایل ڈی اے کے اعلیٰ افسر کے منہ پر نہ صرف تھپڑ مارا بلکہ اسے ننگی گالیاں دی گئیں۔ کیا عثمان بزدار سے بھی اپنی وزارت اعلیٰ کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اسی قسم کی امید کی جا رہی ہے؟ سردار عثمان بزدار کی دوران تعلیم ‘ وکالت اور علا قے میں ان کے رہن سہن کا کوئی ایک بھی اخلاقی سیکنڈل سامنے نہیں آیا ‘گویا نون اور پی پی پی کی نظر وںمیں اس قسم کا شخص کسی طرح بھی پنجاب جیسے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بننے کے قابل نہیں ہو سکتا ؟ میرے عزیز دوست مبین الدین قاضی سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ جو عثمان بزدار کے مختلف بلدیاتی اور اسمبلی الیکشنز سے متعلق مقدمات میں ان کے کونسل رہے ہیں‘ بتاتے ہیں کہ بے شک یہ شخص کم گو ہے لیکن شرافت کا پیکر ہے ۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ ابتدا میں ہی عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کو پہلا جھٹکا چکوال اور راجن پور کے نون لیگی ڈپٹی کمشنرز نے لگایا اور اس کے بعد 8پوائنٹ سے زیا دہ زلزلہ پاکپتن کے ڈی پی او کے تبادلے سے لگایا گیا‘ جس کے آفٹر شاکس ابھی تک جاری ہیں ۔ تین ماہ تک لاہور اور اسلام آباد کے ساتھ ساتھ جو تنقیدٹی وی چینلز پر کی جاتی رہی‘ اس نے پنجاب حکومت کو شل کر کے رکھ دیا۔ لگتا ہے کہ نون لیگی اور میڈیا بھول چکا ہے کہ مظفر گڑھ کے ڈی آئی جی کو شہباز شریف نے اپنی انگلی کے اشارے سے کس طرح موقع پر ہی معطل کرنے کے احکامات دیئے ۔عمران خان سے یہ کہنا ہے کہ اگر عثمان بزدار آپ کاوسیم اکرم ہے تو پھر حضور اسے وسیم اکرم جیسے اختیارات بھی دیں۔پی پی پی جب عثمان بزدار پر تنقید کرتی ہے تو نہ جانے اسے اپنی آنکھ کا شہتیر کیوں نظر نہیں آتا؟ جب ان کا وزیر اعلیٰ سندھ کابینہ کے اجلاس میں سو جایا کرتا تھا اور رہی سندھ میں امن و امان اور گورننس کی صورتحال تو اس کیلئے ایک طویل رجسٹر چاہئے‘ جو اس طرح کا ہے کہ پی پی پی کا میڈیا سنتا جا ئے شرماتا جا ئے‘ لیکن پھر بھی ٹی وی چینلز کے ذریعے اپنی پاک دامنی کے قصے اس طرح سناتے ہیں کہ گوئبلز جیسے جھوٹے بھی شرما رہے ہیں