لاہور (ویب ڈیسک) تیرہ برس ہوتے ہیں، اسلام آباد کلب میں جواں سال یٰسین ملک کے میزبان نے دارالحکومت کے چند اخبار نویسوں کو ملاقات کے لیے مدعو کیا… ”آپ کے خیال میں کون سا پاکستانی لیڈر کشمیر میں سب سے زیادہ مقبول ہے؟‘‘ صحافیوں سے اس نے سوال کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو؟ نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جنرل محمد ضیاء الحق؟ نواز شریف؟ بے نظیر بھٹو؟ یا جنرل پرویز مشرف؟ انکار میں یٰسین ملک سر ہلاتے رہے۔ پھر دھیمے، پُراسرار انداز میں ،جو راز فاش کرتے برتا جاتا ہے، اس نے کہا: عمران خان۔ عمران خان کشمیر کے بارے میں کچھ زیادہ بات نہ کرتے تھے۔ کشمیر کیا، پاکستانی سیاست پر بھی ان کا علم محدود تھا۔ اب بھی محدود ہی ہے۔ کشمیر کے اور چھور سے تو وہ آشنا ہی نہ تھے۔ پھر کشمیری نوجوانوں میں ہر دل عزیز وہ کیوں ہیں؟ ابھی یعنی 2005ء میں تو خود اپنے وطن میں کوئی اہمیت انہیں حاصل نہ تھی۔تجزیہ یہ تھا کہ چونکہ وہ ایک جواں سال آدمی ہیں۔ ذاتی شہرت اچھی ہے۔ دنیا بھر میں توقیر کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ مضبوط اور بہادر دکھائی دیتے ہیں، اس لیے، اس لیے!یٰسین ملک نے اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا اور سری نگر کے کرکٹ سٹیڈیم میں برسوں پہلے برپا ہونے والے ایک کرکٹ میچ کی روداد کہی۔جیسے ہی کھیل کا آغاز ہوا، سری نگر کے تماشائیوں نے قمیضوں تلے چھپائے ہوئے، پاکستانی پرچم نکالے، پاکستانی پرچم اور عمران خان کی تصاویر۔ پھر پورا مجمع، ان تصاویر کے ساتھ لہرانے لگا اور لہراتا ہی رہا۔اب شاید وہ ایک مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ بھارتیوں کے باب میں عمران خان کا اندازِ فکر عام پاکستانیوں سے الگ تھا۔ وہ بھارت کو ایک دشمن ملک نہ گردانتے تھے۔ ہر چیز کو وہ کرکٹ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک حریف ٹیم، جسے ہرانا چاہیے۔ کھیل ختم ہونے کے بعد، حقیقی رفاقت نہیں تو کم از کم مسکراہٹوں کا تبادلہ، دشمنی بہرحال نہیں، قطعی نہیں، کسی صورت بھی نہیں۔ کشمیری امور کے ماہر ارشاد محمود سے ان کی ملاقات کرائی۔ اپنے گھر پہ تمام قابلِ ذکر کشمیری لیڈروں کو مدعو کیا۔ عمران خان کو ان کے درمیان لا بٹھایا۔ کچھ فرق نہ پڑا، ذرا بھی نہیں۔ ان کا وہ ہمدرد تھا اور ان کی آزادی کا خواہاں بھی‘ کشمیر پہ مگر شاذ ہی بات کرتا۔ 2013ء کے الیکشن سے قبل اور پھر 2017ء میں کئی بار اسے یاد دلایا کہ بھارت کے پاکستان دشمن عزائم کے بارے میں اسے بات کرنی چاہیے۔ کشمیر کے بارے میں۔ بھارتی مسلمانوں کی مظلومیت کے بارے میں۔ جنگ کی آگ بھڑکانے کی خاطر نہیں بلکہ اپنی قوم میں زندگی کی رمق پیدا کرنے کے لیے۔ جواب میں اس نے صرف یہ کہا:کشمیر پہ بات کرنے سے ووٹ نہیں بڑھتے۔ تائید میں اضافہ نہیں ہوتا۔عمران خان ہی کی بات نہیں، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت، کسی بھی سیاسی پارٹی کو کشمیریوں کے ساتھ کوئی گہری دل چسپی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما مخدوم امین فہیم نے دہلی سے واپسی پر یہ کہا تھا:بھارتیوں کو شکایت ہے کہ ہم ان کے ہاں دہشت گردی کے مرتکب ہیں۔ زرداری صاحب نے ایک بار یہ ارشاد کیا تھا: کشمیر کا مستقبل عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی ہیں۔ قائد اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف نے یہ فرمایا تھا: اتنے ظلم بھارت نے کشمیریوں پہ نہیں ڈھائے جتنے پاکستانی فوج نے۔ جماعت اسلامی کے سوا پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت کشمیر کے باب میں اپنے کردار پہ فخر نہیں کر سکتی۔ اسفندر یار ولی خان، ایم کیو ایم اور محمود اچکزئی ایسے لوگوں کا تو ذکر ہی کیا، حضرت مولانا فضل الرحمن کے لیے کشمیر کمیٹی نان نفقے کے سوا کیا تھی؟ افراد کی طرح اقوام پر بھی مشکل وقت آتے ہیں، بہت مشکل وقت بھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قومیں اپنے اہداف اور مقاصد کو چھوڑ دیں۔ ایک تنہا آدمی، ایک قبیلہ، ایک ملک یا قوم، پروردگار نے انسان کو آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ امتحان اس لیے آتے ہیں کہ آدمی صیقل ہو۔ اس کی استعداد بڑھے، اس کا ولولہ جاگے۔ وہ پہاڑوں کو عبور کرنا سیکھے۔ انسانی صلاحیت ابتلا میں جاگتی ہے۔ طوفانوں میں فلک گیر ہے۔ جس فرد یا قوم کی زندگی میں کوئی آندھی نہ اٹھے اس کی کوئی حیثیت بھی نہیں ہوتی۔ نصف صدی تک چین نے انتظار کیا۔ ہانک کانگ کو فراموش نہ کیا، واپس لے کر ٹلا۔ امریکہ چاہے نہ چاہے، یورپ چاہے نہ چاہے تائیوان بھی ایک دن چین کا حصہ بنے گا۔ معیشت ہو یا سیاست ابھی کل تک خوار و زبوں چین کیوں ظفر مند ہے؟ عالمِ اسلام کیوں کامیاب نہیں؟ اس لیے کہ انہوں نے بھید کو پا لیا اور ہم غور کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ ہیجان سے نہیں، شور شرابے سے نہیں، اسی طرح مایوسی اور خود ترسی سے نہیں زخم مرہم سے مندمل ہوتے ہیں، زندگی جدوجہد سے سرخرو۔ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ بار بار یاد دلانے کی ضرورت ہے‘ لیس للانسان الا ما سعیٰ۔خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔