ڈھلتی سہ پہر، اسلام آباد، کافی شاپ، دونوں ہاتھوں سے قہوے کا کپ پکڑے، دھندلے شیشوں سے باہر برستی بارش دیکھتے وزیر صاحب، میں نے پوچھا ’’تبدیلی کا سر نظر آ رہا نہ کوئی پیر، یہ بے برکتی یا نالائقی‘‘ قہوے کا گھونٹ بھر کر طنزیہ مسکراہٹ پھینکتے ہوئے وزیر صاحب بولے 3دہائیوں کا گند ہے جناب! 6مہینوں میں صاف ہونے سے تو رہا، ویسے داد دینی چاہئے تم سب کو، 30سال سوئے رہے، اب دن میں چھ چھ بار پوچھ رہے، ابھی تک معجزہ، کرامت کیوں نہیں، کہاں ہے نیا پاکستان، ریاستِ مدینہ، سستا، فوری انصاف، معاشی چمتکار کیوں نہیں ہو پا رہا، لٹی دولت کیوں واپس نہیں آ رہی، صبر! بھائی صبر! ہتھیلی پر سرسوں مت جمائو‘‘، وزیر صاحب نے بات ختم کرکے قہوے کا گھونٹ بھرا، میں دوبارہ بولا ’’بجا فرمایا مگر گزارش یہ، ایک اچھے آغاز کیلئے 6ماہ کافی وقت، کیوں اچھا آغاز نہ ہو سکا، مہنگائی کا جن بے قابو، ٹیکس نیٹ بڑھ رہا نہ ایکسپورٹس، الٹا بے روزگاری، کرپشن بڑھ گئی، صرف گیس بلوں نے چیخیں نکال دیں، اوپر سے ظلم یہ، گیس چوری کیا روکنی، بڑے گیس صارفین کے 2کھرب 15ارب معاف کر دیئے لیکن غریب صارفین کا بھرکس نکال دیا‘‘، وزیر صاحب نے میری بات کاٹی… میرے بھائی! عمران خان کی جگہ آپ آجائیں، حل کر دیں تمام مسائل، میں نے کہا ’’حضور نعرے، وعدے، دعوے آپ کے، مینڈیٹ آپ کا، اب آپ ہی حل کریں یہ مسائل…‘‘ لیکن آگے سنیں، آپ کی ہی ایک رپورٹ بتائے ’’پاکستان کی کل آمدنی 55سو ارب، 1676ارب دفاعی اخراجات، 36سو ارب قرضوں کی ادائیگی، 25سو ارب صوبو ں کیلئے، بجٹ خسارہ 6سو ارب،
مملکتِ پاکستان کا پورا نظام قرضوں، ادھار پر، روز مرہ کا خرچ چلانے کے بھی پیسے نہیں، قرضے 31ہزار ارب ہوئے، 195ملکی ادارے خسارے میں، یہ سالانہ 11سو ارب کھا رہے، اگر صرف ادارہ جاتی خسارہ ہی ختم ہو جائے، ہمار ادفاعی بجٹ نکل آئے، لیکن رپورٹ کا جو حصہ تشویشناک وہ یہ کہ پہلے گردشی قرضہ ایک ارب یومیہ، اب دگنا ہو چکا، پی پی حکومت 5ارب یومیہ قرضے لے رہی تھی، لیگی حکومت ساڑھے سات ارب جبکہ آپ 15ارب‘‘۔ میری بات ختم ہوئی تو قہوے کا کپ ختم کر چکا کپتان کا یہ اہم کھلاڑی بولا ’’ارے تمہارا قہوہ تو ٹھنڈا ہو گیا‘‘ یہ کہہ کر ویٹر کو بلایا، اپنے اور میرے لئے دو گرما گرم کپ قہوے کا آرڈر دے کر بولا ’’کل میں مری میں تھا، کیا موسم تھا، باہر وقفے وقفے سے برف باری، اندر ماحول ایسا کہ شلوار قمیص میں بھی گرمی لگ رہی‘‘، وزیر صاحب بات بدل کر گورنر ہاؤس میں گزرے اپنے چند گھنٹوں کی داستان سنانے لگ گئے، جبکہ میرے ذہن میں غریبوں کے ٹھنڈے چولہے پھنسے ہوئے، 45منٹ بعد خدا خدا کرکے ان کی داستان ختم ہوئی، ہم اٹھے، کافی شاپ سے نکلتے ہوئے یہ بولے ’’یار قوم کو امید دلاؤ، ہر وقت مایوسی والی باتیں نہ کرتے رہا کرو‘‘
میں نے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا ’’اب آپ بھی امید والا ایک آدھ کام کر لیں‘‘، میری بات نظر انداز کر کے انہوں نے پُرجوش جپھی ڈالی، گاڑی میں بیٹھے اور ٹاٹا بائی بائی کرتے یہ جا وہ جا۔ چند دن پہلے ایک ٹی وی پروگرام کے بعد پی پی، (ن) لیگ کے دو سرکردہ سیاستدانوں سے جب کہہ بیٹھا، بھائی جان سوا ستیاناس کر دیا آپ لوگوں نے ملک کا، تباہ و برباد کرکے رکھ دی ہر شے، اب کم از کم شریفس اور زرداری صاحب اینڈ کمپنی کے جھوٹوں کا دفاع تو نہ کیا کریں، یہ سن کر دونوں قہقہے مار کر بولے ’’بھائی جان ٹی وی پروگرام ختم ہو چکا، اب مایوسی والی باتیں نہیں‘‘، یہ کہہ کر دونوں پھر سے ہنسے اور آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ میں نے حیران ہو کر ایک دوسرے سے خوش گپیاں مارتے ان سیاسی مخالفین کے چہروں پر نظر ماری، چہروں پر اطمینان، خوشی دیکھ کر لمحہ بھر کیلئے ایسا لگا کہ ملک کی ساری لوٹ مار، مِس مینجمنٹ اور بیڈ گورننس کے ذمہ دار یہ، ان کے بڑے نہیں، مجھے پچھلے ہفتے سرراہ ملے وہ سدا بہار بیورو کریٹ یاد آگئے، جنہیں سب بیورو کریسی کا مولانا فضل الرحمان کہیں، جو مشرف دور میں جنرل صاحب کی ٹیم کے اہم ممبر، پیپلز پارٹی دور میں زرداری صاحب کے قابلِ بھروسہ ساتھی، میاں نواز شریف آئے تو ان کے ہراول دستے میں، اب کپتان کے معتبرِ خاص، سلام دعا کے بعد کہنے لگے
’’تمہاری باتیں ہوتی تو سچی ہیں مگر مایوسی والے سچ کا کیا فائدہ، جھوٹ نہیں بولنا، نہ بولو، مگر سچ مینیج کرنا سیکھو، کبھی کبھی جھوٹی امید ہی سہی، ہر وقت مایوسی پھیلانا بھی ٹھیک نہیں‘‘، میں ان کا منہ ہی دیکھتا رہ گیا۔ دوستو! دکھ یہ بھی کہ حکومت، اپوزیشن، بیورو کریسی کوئی سچ سننے کو تیار نہیں، دکھ یہ بھی کہ قوم مجسم غلام، چپ چاپ جھوٹ سنے جا رہی، ہر ظلم، ناانصافی برداشت کئے جا رہی، جیبیں خالی، پیٹ خالی، مگر کوئی بول نہیں رہا، اپنی قوم کو دیکھ کر تو لیٹروں کی قسمتوں پر رشک آئے، کیسا دیس، لوگ ملے، یہ لوٹ لوٹ کر تھک گئے، لوگ لٹ لٹ کر نہ تھکے، ارے ہاں! چھوڑیں یہ باتیں، کہیں آپ بھی نہ کہہ دیں کہ مایوسی مت پھیلاؤ، اچھی اچھی باتیں کر لیتے ہیں، پہلی بات، عمران خان نے ٹھیک کہا، پارلیمنٹ چلانے کیلئے جتنی کوشش کرنا تھی، کر لی، اب شہباز شریف پی اے سی کا چیئرمین قبول نہیں، دیر آید درست آید، غلطی ہوئی، غلطی مان کر غلطی سدھارنا اچھی بات، ورنہ ڈاکٹر عاصم کو چیئرمین ہائر ایجوکیشن لگانے، شرجیل میمن کو پرفارمنس ایوارڈ دینے والے زرداری صاحب اور لندن میں لیٹے اشتہاری اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنائے رکھنے والے نواز شریف اور عمران خان میں کیا فرق، دوسری اچھی بات،
بڑے کاروباری گروپ کے گرفتار چیف فنانشل آفیسر اسلم مسعود آخرکار پاکستان میں، اب منی لانڈرنگ کیس حتمی مراحل کی طرف بڑھے گا، ویسے ان دنوں آصف زرداری، بلاول بھٹو کو دیکھ کر لگے، عین ممکن کسی دن کہہ دیں، آئندہ سے ہمارا نام اٹھارہویں ترمیم، آج کے بعد ہمیں تنگ کرنا، اٹھارہویں ترمیم کو تنگ کرنا، ایک اور اچھی بات، علیم خان کی گرفتاری پر تحریک انصاف کا ردعمل قابلِ تعریف، جمہوریت خطرے میں پڑی نہ پارلیمنٹ، سویلین بالادستی کی چھت ٹپکی، لیکن علیم خان کہانی بھی روایتی نکلی، 12آف شور کمپنیاں، دبئی، لندن میں فلیٹس، منی لانڈرنگ والدین کے نام پر، 9سو کنال زمین اصل قیمت 60کروڑ، ظاہر کی ہوئی 2کروڑ، پوچھا گیا، کمپنیوں میں سرمایہ کہاں سے آیا، کہا، پیسے والدہ نے دیئے، والدہ ریٹائر پروفیسر، کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہیں، پوچھا گیا، والدہ کے پاس پیسہ کہاں سے آیا، کوئی جواب نہیں، زمین کی بات چلی تو فرمایا کروڑوں روپے والد کا دیا تحفہ، والد ریٹائر بینکر، پوچھا گیا، یہ کروڑوں والد کے پاس کہاں سے آئے، کوئی جواب نہ تھا، جب نیب افسر نے کہا، والد، والدہ سے ملوائیں تو جواب ملا دونوں فوت ہو گئے، وہی کہانی جو نواز شریف سنا چکے کہ جو کچھ پتا وہ مرحوم والد اور حسن، حسین کو، وہی کہانی جو بلاول سنا چکے، ڈیڑھ ارب کے اثاثے ملے، والد، والدہ، دادا سے، سب کی دولتیں ایک سی، سب کی کہانیاں ایک سی، آخر میں یہ بھی سنتے جائیے کہ سانحہ ساہیوال پر بنی جے آئی ٹی کو آخری لمحوں کی جو روداد کمسن مظلوم عمیر نے سنائی، رونا آ جائے، دل پھٹ جائے، فائرنگ کے دوران پاپا نے مجھے، منیبہ کو اپنے گھٹنوں میں چھپا لیا، میں اور بہن گولی کے درد سے رو رہے تھے کہ پولیس۔۔۔ چھوڑیں، سن نہیں سکیں گے، پھر کہتے ہیں مایوسی بھری باتیں نہ کرو، حالات یہ ہوں تو بندہ کہاں سے لائے اچھی اچھی باتیں۔