ہماری تحریک مڈل کلاس کی تحریک تھی ، دھرنے نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھی، کرپشن کے خاتمےکا نعرہ نوجوانوں میں مقبول ہوا اورتحریک انصاف کی حکومت آئی اب اگلے مرحلے میں نظام بدلے گا‘‘۔یہ بات وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہی اور میرے ذہن میں یہ سلگتا ہوا سوال پھنکارنے لگاکہ نظام کیسے بدلے گا، تبدیلی کیسے آئے گی ، نیا پاکستان کیسےوجود میں آئے گا۔ بے شک وزیر اعظم عمران خان روزانہ چودہ چودہ گھنٹے کام کر رہے ہیں مگر تبدیلی چیونٹی کی رفتار سے چل رہی ہے ۔ میں نے اہل نظرکی طرف رجوع کیا،اہل دانش و بینش سے مکالمہ کیا کہ تبدیلی کی رفتار کیسے تیز کی جاسکتی ہےتو خبر ہوئی کہ تبدیلی کا سورج کرپشن کے خاتمے سے نہیں کرپٹ لوگوں کے خاتمے سے طلوع ہوگا ۔موجودہ سسٹم میں تواتنی اہلیت نہیں ۔میرےخیال میں فوری طور پر ملک گیر سطح کا ایک ایسے محکمہ قائم کرنا ضروری ہےجوہر پاکستانی کی آمدن اور اثاثوں کاحساب کرے ۔جائزہ لے کہ سب اہل ثروت ،ثروت مند کیسے ہوئے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق ملک میں تقریباً پانچ چھ لاکھ لوگ ایسے ہیں جن کی آمدن اور اثاثوں میں تفاوت ہے۔اس سلسلے کا آغاز جنرل ضیا الحق کے دور ِ حکومت سے شروع ہوا اور ابھی تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔ستم یہ ہے کہ اچھے اور برے پہچان ہی ختم ہو گئی ہے۔ عزت کا معیارصرف دولت بن گیا ہے ،چاہے چوری اور ڈاکے سے ہی کیوں نہ حاصل کی گئی ہو ۔
کسی کو بھی اس بات پر حیرت ہی نہیں ہوتی کہ یہ جو افسر ایک ڈیڑھ لاکھ رو پیہ ماہانہ تنخواہ لیتا ہے ۔اس کے تین بچے اپنے اسکولوں میں ساٹھ ہزار روپیہ فیس کہاں سے دیتے ہیں ان کی کار میں روزانہ دوہزار روپیہ کا پٹرول کون ڈال جاتا ہے ۔وہ ماہانہ بیس ہزار روپے بجلی کا بل کیسے ادا کرتا ہے ،ان کے گھر میں یہ جو دو نوکر ہیں ان کی تنخواہیں کہاں سے آتی ہیں ۔انہوں نے یہ ایک کروڑ روپے کا مکان کیسے خرید لیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔سچ تو یہ ہے کہ ہم من حیث القوم کرپٹ ہوچکے ہیں۔ آج کل تو یہ وبا کچھ کم ہو گئی ہے کسی زمانے میں بہت زیادہ تھی ہر بچے کے ماں باپ چاہتے تھے کہ ا ن کا بیٹا یا تو انجینئر بنے یا ڈاکٹر ،مسئلہ صرف یہ تھا کہ معاشرے میں یہی دو لوگ سب سے زیادہ دولت کماتے تھے ، سوال پیدا ہوتا ہے کہاں سے کماتے تھے ۔تنخواہ تو ڈاکٹر انجینئر کی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کسی ٹیچر یا لیکچرار کی ہوتی تھی مگر والدین کی نظر انجینئر زکی تنخواہ پرنہیں اوپر سے ملنے والے کمیشن پر ہوتی تھی ۔ ڈاکٹر زکی اس آمدن پر ہوتی تھی جوپرائیویٹ پریکٹس کے دوران مریضوں کی جیب سے نکالتے تھے۔اب اس اجتماعی خرابی کی درستی آسان نہیں ۔
میں نے اس سلسلے میں کچھ وزیروں سے بھی گفت وشنید کی ،اسٹیبلشمنٹ کے کچھ لوگوں سے بھی مکالمہ کیا مگرمیں مایوس ہوا ،عمران خان کےسوا کوئی شخص بھی اس بات پر تیار نہیں کہ کرپٹ عناصر کو بڑی بڑی کوٹھیوں اور لمبی لمبی کاروں سے نکال کر جیلوں میں منتقل کردیا جائے ۔سب یہی کہتے ہیں کہ اس سے ملک میں کام کی رفتار سست ہوجائے گی اس وقت بھی یہ صورت حال ہے کہ نیب کے ڈر سے بیوروکریسی نے کام روک رکھا ہے ، عمران خان کو بھی مجبور کیا گیا کہ وہ چیئرمین نیب سے بات کریں اور بیورو کریسی کو تحفظ فراہم کریں تاکہ بیورو کریسی کام کرے ۔ میرےخیال میں عمران خان کو ایسے مشوروں پر بالکل عمل نہیں کرنا چاہئے ۔وہ بیورو کریٹ جو کام نہیں کرتے انہیں فوری طور پر ملازمت سے فارغ کر دیا جائے نیب کادائرہ کار بڑھایا جائے ، نیب کی فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ جلد سے جلد مجرموں کو انجام تک پہنچا سکے ۔نیب میں تقریباً اکیس سو کے قریب لوگ کام کرتے ہیں ان کی تعداد میں کم ازکم دس گنا اضافہ ہونا چاہئے ۔یہ بات طے ہے کہ جب تک کرپٹ لوگوں سے نجات حاصل نہیں کی جائے گی
تبدیلی نہیں آ سکے گی اور خدا نخواستہ اگر عمران خان ناکام ہو گئے تو آگے روشنی کی کوئی کرن موجود نہیں ، صرف اندھیرے ہیں ۔عمران خان کو ہر حال میں کامیاب ہونا ہے ۔چاہے اس کی کوئی قیمت بھی ہمیں دینا پڑے ۔چاہے ترقی کی رفتار جتنی بھی سست ہوجائے یہ آپریشن کرنا ہی ہوگا تب ہی تبدیلی کی رفتار تیز ہوگی ۔ نظر آرہا ہے کہ علیم خان کی گرفتاری آخری نہیں ،کچھ اور وزیربھی گرفتار ہونگے۔پرویز خٹک کے متعلق تحقیقات جاری ہیں ۔ مونس الٰہی کی گرفتاری کی خبریں بھی فضا میں موجود ہیں۔ پرویز الٰہی کے معاملات بھی زیادہ بہتر نہیں ۔کچھ اعلیٰ افسران کی گرفتاری بھی یقینی ہے ۔جن دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب کی تلاش جاری تھی اور علیم خان حیران و پریشان تھے کہ مجھے وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جارہا ان دنوں میں نے لکھا تھا ’’بے شک علیم خان نے پارٹی پر بہت پیسہ خرچ کیا ہے مگر نیب کی انکوائریز کی موجودگی میں انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کیسے بنایا جا سکتا ہے۔پانامہ لیکس میں اُن کا نام شامل ہے ۔ عوام توقع کررہے ہیں کہ پانامہ لیکس میں نواز شریف کے علاوہ بھی جن لوگوں کا نام آیا ہے عمران خان اُن سے اِ س ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے‘‘۔ پھر بھی علیم خان پنجاب حکومت میں سینئر منسٹر بننے میں کامیاب ہو گئے مگر نیب نے اپنی تحقیقات جاری رکھیں جو آخر کار ان کی گرفتاری پر منتج ہوئیں ۔اہم ترین سوال یہی ہے کہ کیا کرپشن اکیلے نواز شریف ، شہباز شریف ، سعد رفیق یا علیم خان نے کی تھی وہ جو سرکاری عہدہ داران کے دست و بازو تھے ابھی تک انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ۔یہ کرپشن کا کینسر ہے جب تک اسے پوری طرح کاٹ کر نہیں پھینکا جائے گا ۔ اس وقت تک اس کا علاج ممکن نہیں ۔