معروف صحافی و کالم نگار اور اینکرپرسن اوریا مقبول جان نے اپنے کالم’’ ایک گواہی جس کی بہت ضرورت تھی‘‘ میں لکھا ہے کہ مجھے ایک گواہی کے لیے ایک ایسے خواب کا ذکر کرنا ہے جو ایک نیک آدمی نے پانچ سال پہلے دیکھا تھا اور وہ خواب پورا ہو گیا۔
بیس سے اکیس گریڈ میں جانے کے لیے ہمیں سٹاف کالج لاہور میں چھ ماہ کا کورس کرنا پڑتا ہے۔اس کورس میں میرے ساتھ ایک بریگیڈیئر بھی تھے جو جرنیل پروموٹ ہونے کے لیے یہ کورس کر رہے تھے۔یہ اس دور کی بات ہے جب جنرل راحیل شریف کو فوج کا سربراہ مقرر ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا تھا۔بلوچ رجمنٹل سنٹر کے بریگیڈیئر ان لوگوں میں سے ہیں جن سے اہل نظر کا بھی رابطہ رہتا ہے۔ایک دن میرے دوست بریگیڈیئر ان سے ملنے کے لیے ایبٹ آباد گئے تو وہاں کراچی کے ایک مشہور استاد بھی موجود تھے۔ انہوں نے وہاں اپنا ایک خواب سنایا کہ میں نے خواب میں رسول اکرم ؐ کی محفل دیکھی۔جس میں حضرت عمرؓ فوج کے کسی‘باجوہ جرنیل کو ساتھ لیکرآئے اور بیٹھ گئے۔رسول اکرمؐ نے اسے کچھ عطا کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو جرنیل نے اسے بائیں ہاتھ سے لینا چاہا۔جس پر حضرت عمرؓ نے بایاں ہاتھ پیچھے کر کے دایاں ہاتھ آگے کروایا۔اوررسولؐ اسے جو عطا کرنا چاہتے تھے کر دیا گیا اس کے بارے میں خواب دیکھنے والے کو علم نہیں۔ اس بات پر وہاں موجود فوجیوں کے کان ایک دم کھڑے ہو گئے۔
دونوں بریگیڈئیر نے حساب لگایا تو اس وقت چار جرنیل جاٹ تھے۔تصاویر دکھائی گئیں تو پروفیسر صاحب نے تصویر میں خواب میں نظر آنے والے جرنیل کو پہچان لیا۔ایک بار مذکورہ پروفیسر صاحب نے جرنیل سے اپنا خواب بیان کیا تو جنرل صاحب نے پوچھا کہ اس خواب کی تعبیر کیا ہو سکتی ہے۔تو پروفیسر نے جواب دیا کہ ہو سکتا ہے کہ آپ اگلے آرمی چیف ہوں۔جس پر جنرل صاحب نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا میں اپنے گروپ میں پانچویں نمبر پر ہوں اور مجھ سے سینئیر تمام لوگ مجھ سے زیادہ قابل ہیں اور اثرو رسوخ بھی رکھتے ہیں۔اوریا مقبول جان مزید لکھتے ہیں کہ ان پروفیسر موصوف کو بعد میں سخت تفتیش اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور پھر وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے تاہم ان کا خواب سچ ثابت ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں بھارت کے ایک عالم دین کا کہنا ہے کہ میں دعا کرتا تھا کہ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں ۔ عمران خان میں اتنا ٹیلنٹ ہے تو اللہ کرے یہ وزیراعظم بن جائے۔مجھے لگتا تھا کہ عمران خان میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ اس بکھرے ہوئے ملک کو جوڑ دیں گے۔وزیراعظم عمران خان کے ہمارے ملک کے کھلاڑیوں سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ہم دیکھتے تھے کہ وہ ہمارے کھلاڑیوں کو گلے ملتے تھے اور خوب باتیں کرتے تھے۔
ہم یہ بھی سوچتے تھے کہ اگر عمران خان وزیراعظم بن جائیں تو پاکستان کے ہندوستان سے تعلقات بہت اچھے ہو جائیں گے۔کیونکہ ہمارے بھی خاندان کے کئی لوگ اورعزیز و اقارب پاکستان میں ہیں لیکن اب تو وہ جیسے دشمن ملک بن گیا ہے،ایسا لگتا تھا کہ یہ لوگ اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے ترس گئے ہیں۔جب دو ممالک کے اچھے تعلقات ہوں تو نہ صرف ان دو ممالک اور لوگوں کا بلکہ پوری دنیا کا فائدہ ہوتا ہے۔کئی بار مجھے عمران خان کے وزیراعظم بننے کے لیے دعا کرنے کی توفیق ہوئی کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے لیے بہت خیر کی بات ہونی تھی۔لیکن یہ بات بہت پرانی ہو گئی تھی۔ عالم دین کا مزید کہنا تھا کہ جب میں اس بار حج ادا کرنے آیا تو منیٰ میں جانے سے پہلے میں نے دو تین رات لگاتار عمران خان کو خواب میں دیکھا۔پہلے دن یہ خواب دیکھا کہ الیکشن ہو گئے ہیں نتیجہ آنے والا ہے اور کچھ لوگ انہیں میرے پاس دعا کے لیے لائے ہیں میں نے دیکھا عمران خان بہت تواضع کے ساتھ پٹھانی سوٹ پہنے میرے ساتھ برابر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ میری پاکستان بننے کی حق ادا کرنے کی نیت ہے۔
عالم دین کا کہنا تھا کہ مجھے دو تین راتیں یہی خواب آتا رہا۔اور پھر جب ہم منیٰ گئے تو میرے خواب میں حضرت محمدؐ تشریف لائے اور کہا کہ اب تو خوش ہو تم دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ کرے عمران خان وزیراعظم پاکستان بن جائے۔ آصف زرداری کے روحانی استاد گوجرانوالہ کے پیر اعجاز شاہ تھے۔ پانچ سال ایوانِ صدر میں بوریا نشین رہے۔ سوئس اکاؤنٹس کیس کے دوران پیر صاحب نے ایک برس مدینہ میں چلہ کشی کی ۔پیر اعجاز شاہ کے ہی حکم پر ایوانِ صدر میں روزانہ ایک بکرے کی قربانی ہوتی تھی۔ بہت سے ملکی و غیر ملکی دوروں میں بھی پیر صاحب صدر کے ساتھ ہوتے تھے۔ یہ فیصلہ بھی پیر صاحب ہی کرتے تھے کہ زرداری صاحب کو کب پانی کے کنارے اور کب پہاڑی علاقے میں رہنا ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کا اگرچہ کوئی مستقل پیر تو نہیں تھا مگر انہیں بہت سے بزرگوں سے عقیدت تھی۔ ایک بزرگ رحمت اللہ عرف دیوانہ بابا عرف چھڑی بابا آف دھنکہ شریف آف مانسہرہ تو بی بی کو نواز شریف صاحب سے ترکے میں ملے۔ دیوانہ بابا کے پاس بہت سی سیاسی ہستیاں جاتی تھیں۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ جس کو وہ غضب ناک ہو کر اپنی چھڑی مارتے اس کی مراد بر آتی۔گائے یا بیل کو چھڑی ماری جائے تو وہ دُم ہلاتے ہوئے چھڑی لگنے کی جگہ کو سہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر بی بی اور میاں کی دُم نہیں تھی یا چھڑی کھانے کی بے پایاں خواہش تھی۔