وزیر اعظم عمران خان نے حزب اختلاف کے لیڈر شہباز شریف کو سعودی شہزادے محمد بن سلطان کے اعزار میں اتوار کو دئیے جانے والے عشایئے میں شرکت کی دعوت نہ دینے کی وجہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں انہیں دعوت دینے سےحکومت پر این آر او دئیے جانے کے تناظر میں نہ دیکھا جائے
اوردعوت دینے سےڈیل کا تاثر ملے گا،یہ بات وزیر اعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے کہی تاہم ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پیر کے دن سعودی شہزادے کے اعزازمیں دئیے جانے طہرانے دعوت دے سکتے ہیں کیونکہ وہ حکومت سے ڈکٹیشن نہیں لیتے،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی شہزادے کے اعزاز میں دیئے جانے والے عشائیے میں وزیر اعظم نہ صرف شہباز شریف بلکہ آصف زرداری، بلاول بھٹو اور جمیعت علامائے اسلام کے رہنما (ف) گروپ کے بھی کسی رہنماکو دعوت نہیں دے رہے تاہم صدر مملکت انہیں دوسرے دن ظہرانے میں دعوت دے سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پر کہا کہ وزیر اعظم حزب اختلاف کے رہنماؤں کو اس لئے دعوت نہیں دے رہے کیونکہان میں سے پر کرپشن کے الزامات ہیں اور بیشتررہنما یا تو جیل میں ہیں ، یا ضمانت پر یا پھر ان کے خلاف مقدمات درج ہیں جن کی تفتیش جاری ہےاس کے علاوہ دیگر ایسے رہنما ہیں عشائیے میں شرکت کے لئے قابل نہیں سوشل میڈیا پر وزیر اطلاعات نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حزب اختلاف کے لیڈروں بلایا جائے یا نہیں کیونکہ مستقبل قریب میں نئی قیادت سامنے آسکتی ہے،
وزیراعظم اور ان کے جماعت کے دیگر رہنماؤں نے 18 نومبر 2016 کو ترک صدر طیب اردگان کے اعزاز میں دئیے گئےریسپشن اور ان کے پارلیمنٹ سے خطاب کا بائیکاٹ کیا تھا،اس وقت پی ٹی آئی کے وائز چیرمین شاہ محمود قریشی نے کے وہ غیرملکی رہنماؤں کی تقریبات میں اس لئے شرکت نہیں کررہے کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف اور دیگر پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ نے نواز شریف کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ لندن جا کر اپنے معالج سے دل کا علاج کرائیں اور پھر واپس آ جائیں۔رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ حکومتی وزیر اپنی خراب کارکردگی سے عوام اور میڈیا کی توجہ ہٹانے کے لیے ایسے بیانات دے رہے ہیں۔
نجی اخبار کے مطابق رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر نواز شریف کو ضمانت مل گئی، جس کے بیماری کی بنیاد پر امکانات ہیں تو کیا یہ کہا جائے گا کہ ڈیل کرکے ضمانت دی گئی؟ کیا یہ بھی کہا جائے کہ اُنہیں سزا بھی ڈیل کے تحت ہوئی تھی؟مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ وفاقی وزراء ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔واضح رہے کہ کل وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف 2 ارب ڈالر دینے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ شریف خاندان نے ایک ملک کے ذریعے 2ارب ڈالر کی آفر کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق ایک بار پھر ڈیل کی خبریں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔گزشتہ روز ایک جانب معروف صحافی و اینکر غریدہ فاروقی نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پر دعویٰ کیا کہ ڈیل فائنل ہو گئی ہے تو دوسری جانب حکومتی وزیروں کی جانب وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے شریف خاندان کو رقم کے عوض ڈیل کی آفر کی ۔وہ نجی ٹی وی میں مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف سے مکالمہ کر رہے تھے۔انکا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن میں اس وقت دو گروپ بن چکے ہیں۔ ایک گروپ نواز شریف کا ہے اور ایک گروپ شہباز شریف کا ہے۔جاوید لطیف میرے بڑے بھائی ہیں لیکن میں آپکو بتا دوں کہ یہ شہباز شریف گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس پر انہوں نے مسلم لیگ ن کو آفر کرتے ہوئے کہا کہ میں حکومتی پالیسی کی بات نہیں کرتا مگر میں آپکو ذاتی موقف بتا سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر نواز شریف 7 ارب ڈالر تک حکومت کو ادا کر دیں تومیں خود اپنے وزیر اعظم کے پاس جا کر ان کی منت سماجت کروں گا کہ ہمیں ان لوگوں کو سرکاری مہمان بنا کر کیا کرنا ہے الٹا خرچہ ہی بڑھے گا تو ان سے رقم لے کر انکو جانے دیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں آفر کرتا ہوں کہ جاوید لطیف صاحب ٹوکن پکڑ کر میری طرف آجائیں تو میں ابھی کچھ نہ کچھ کرنے کوتیار ہوں۔آج اس ڈیل پر بات کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا ہے کہ شریف خاندان نے مختلف ذرائع سے پیسے کی پیشکش کی تھی اور ایک ملک کوبھی بیچ میں ڈالا تھا جس سے معذرت کر لی گئی جب کہ 2 ارب ڈالرکی پیشکش کی گئی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کا انداز سیاست یہ ہے کہ مجرم سے پیسے بھی وصول کیے جائیں اور اسے سزابھی دی جائے۔