میرا بھائی‘ میرا دوست اصغر نیازی چلا گیا۔ میں اس کیلئے یہ لفظ استعمال نہیں کروں گا کہ وہ مر گیا۔ ایسے لوگ مرتے نہیں۔ مگر اصغر نیازی نے پوری طرح زندگی بھی نہیں گزاری۔ بڑے بھائی پروفیسر محمد اکبر نیازی چلے گئے تو پھر اس کے
چند دنوں کے بعد محمد اصغر نیازی بھی چلے گئے۔ بھائی اکبر نیازی کیلئے ایک بڑی روحانی شخصیت احمد جاوید لاہور سے تلہ گنگ پہنچ گئے جبکہ احمد جاوید صاحب کی صحت بھی اچھی نہیں رہتی۔ وہ بھائی اصغر نیازی کے دوست تھے۔ پھر بھائی اکبر بھی ان کے دوست بن گئے۔ میں ان سے یہ تعلق رکھتا ہوں کہ وہ بھائی محمد اصغر نیازی کے دوست تھے اور پھر بھائی محمد اکبر نیازی کے دوست ہوئے۔ وہ میرے دونوں بھائیوں سے ایک تعلق رکھتے تھے جو دوستی سے آگے کی بات ہے۔ جاوید غامدی سے بھی اصغر کی دوستی پہلے ہوئی تھی۔ یہ میری سعادت ہے کہ میں اتنے بڑے آدمی سے متعارف ہوا۔ لمحۂ موجود میں پورے عالم اسلام میں ایک منفرد عالم ہیں۔ میں نے انہیں عالم دین نہیں کہا جبکہ وہ بے پناہ عالم دین ہیں۔ ان کی گفتگو سنتے ہوئے ایک بہت اچھی خاتون نے کہا کہ آپ تو ایک بہت بڑے آرٹسٹ بھی لگتے ہیں۔
غامدی صاحب علم دین کو بہت بڑا علم سمجھتے ہیں۔ علوم کے خزانے کی طرح ایک بہت بڑا خزانہ ان کے پاس ہے اور وہ یہ سرمایہ لٹا رہے ہیں۔ بھائی محمد اصغر نیازی میرے ہم عمر تھے۔ میرے ہمسفر تھے۔ وہ میرے ہمشکل بھی تھے۔ ایک مرحوم دوست حسن اختر موکل نے بھائی غلام حیدر سے کہا کہ نیو ہوسٹل گورنمنٹ کالج لاہور میں محمد اجمل نیازی مجھے گرمجوشی سے ملا۔ جب میں دوسرے دن گورنمنٹ کالج میں اسے ملا تو اس نے مجھے پہچانا ہی نہیں۔ مجھے بڑا افسوس ہوا تو اسے بتایا گیا کہ گورنمنٹ کالج میں آپ اجمل نیازی کے بھائی اصغر نیازی سے ملے ہونگے۔ وہ دونوں بھائی ایسے ہیں کہ میں بھی کئی بار دھوکہ کھا چکا ہوں۔ ہم تینوں بھائیوں کو بہت پیارے اور علم دوست ابا مرحوم کریم داد خان نے گورنمنٹ کالج میں داخل کرایا۔ میں نے ان سے کہا کہ پہلے ہی دو بھائی گورنمنٹ کالج لاہور میں ہیں۔ ہمارے گھر کے اخراجات ٹھیک طرح نہیں چلتے۔ ابا نے میری طرف خاص نظروں سے دیکھا اورکہا کہ گزارا کرنے کیلئے کم یا زیادہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔گزارا کرنا ہو تو ہو جاتاہے۔ تم جائوگورنمنٹ کالج مگر ایک شرط ہے کہ میں گورنمنٹ کالج لاہو آئوں تو مجھے پوچھنا نہ پڑے کہ اجمل نیازی کون ہے۔ پھر میں گورنمنٹ کالج میں بکھر گیا اور نکھر گیا کہ کئی بار میں خود بھی اپنے آپ کو نہ پہچان پایا اور میں کبھی خود سے نہ پوچھ سکاکہ اجمل نیازی کون ہے۔ جب مجھے گورنمنٹ کالج کا سب سے بڑا اعزاز ’’رول آف آنر‘‘ ملا تو پورے ایک منٹ تک تالیاں بجتی رہیں۔ میں آج تک سوچتا ہوں کہ کاش اس وقت بخاری آڈیٹوریم میں میرے ابا بھی موجود ہوتے۔ بھائی اصغر نیازی موجود تھے اور وہ مجھ سے زیادہ خوش تھے۔ خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ قابل تھا۔ آج عمران خان کے دور حکومت میں نیب اتنی سرگرم کیوں ہوئی ہے؟ عبدالعلیم کے خلاف تحقیقات تو ہو نہیں رہیں فیصلہ پہلے کرلیا گیا ہے۔
اب چودھری پرویزالٰہی کا نام بھی نیب کے حلقوں میں لیاجا رہا ہے۔ جب پنجاب میںتحریک انصاف کی حکومت اور عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بنانے سے پہلے سپیکر پنجاب اسمبلی کے طور پر وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا‘میں حیران ہوں کہ علیم خان کی گرفتاری پر کیوں بات نہیں کی؟ وہ عمران خان کے دوستوں میں سے ہیں۔ پنجاب حکومت کی ایک بات مجھے پسند آئی کہ اس نے علیم خان کے معاملے میں کسی فیصلے تک سینئر وزیر کا عہدہ خالی رکھا ہے۔ نیب کے ذمہ داروں کو اس جملے پر غور کرناچاہئے؟ علیم خان نے کہا ہے کہ نیب بڑھا چڑھا کر تمام معاملات کو پیش کر رہا ہے۔ مجھ پہ کرپشن کا ایک الزام بھی نہیں لگایا گیا۔ نیب کی کارروائیاں مشکوک اورجانبدارانہ ہوتی جا رہی ہیں۔ دو ہفتوں میں لاہور ہائی کورٹ نے نیب کا صاف پانی کیس منہدم کر دیا۔ پھر آشیانہ کیس ردی میں ڈال دیا گیا۔ کچھ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ نیب کو ختم کر دیا جائے۔ یا پھر اس کی تنظیم نو کی جائے۔ اسے ایک موثر انٹی کرپشن ادارہ بنایا جائے۔ کرپشن کے خلاف انٹی کرپشن کا ادارہ بنایا گیا تو بڑا مذاق اڑایا گیا اور اسے کچھ ہی دنوں کے بعد ’’آنٹی کرپشن‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ شہباز شریف چار ماہ قبل گرفتار کئے گئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اُن کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ آخر کار نیب کی غلط کاریوں کو کون روکے گا؟ جب چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعظم عمران خان نے پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنایا تو نیب کہاں تھی۔ میں نے نیب کی کارروائیوں کے حوالے سے صدیق الفاروق کا نام بھی سُنا۔ ان کے خلاف کرپشن کا الزام ایک مذاق لگتا ہے۔ جس پر نیب والوں کو بھی ہنسی نہیں آئے گی۔ یہی صورتحال ایک اچھے بیورو کریٹ کامران لاشاری کے لیے ہے۔ میں اسکے لیے صرف خاموش ہو گیا ہوں۔ میں بہت بیورکریٹس کو جانتا ہوں۔ میں حیران ہوںکہ نیب والے انہیں کیوں نہیں جانتے؟ میری ملاقات بیورو کریٹس سے ہے۔ کامران لاشاری سے میری دو تین ملاقاتیں ہیں۔ وہ اہل آدمی ہیں اور اہل دل بھی ہیں۔ باعلم لوگ اُن کی قدر کرتے ہیں۔ جب وہ لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے تو اپوزیشن کے ایک جلوس کے اندر پہنچ گئے تھے۔ اس طرح بپھرے ہوئے لوگ بھی بہت حیران ہوئے تھے۔ شاید یہ ہماری احتجاجی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ ان کے لیے نیب کے الزامات بغیر کسی ثبوت کے کچھ اچھے نہیں لگے۔ وہ جو کرپشن میں لتھڑے ہوئے لوگ ہیں نیب ان کے خلاف کارروائی کرے۔ موثر کارروائی کرے۔ پشاور میں بھی ایسے ہی واقعے پر باتیں ہو رہی ہیں اوروزیر اعظم عمران خان نے اس پر اپنا ردعمل دیا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر نے کہا کہ نیب براہ راست شواہد حاصل کئے بغیر کسی کو گرفتار نہ کرے۔ ان کی کورٹ سے رہائی کے بعد لوگوں کے نیب کے لیے کیا تاثرات ہونگے۔