لاہور (ویب ڈیسک)گز شتہ روزگورنرہاؤس میں ہونے والی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی نیوز کانفرنس کا پیغام تو صبح سویرے ہی موصول ہوگیا تھا۔نیوز کانفرنس کا وقت تقریباً وہی تھا ‘جس پر مجھے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق‘ ایک دوسری جگہ پہنچنا تھا ۔سوچا کہ اسی کو بہانہ بنا کر نیوز کانفرنس سے نظریں چرالیتے ہیں۔ نامور کالم نگار سہیل احمد قیصر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ایسی سوچیں بھی بہانے بازی میں معاون ثابت ہورہی تھیں کہ وہی پرانی باتیں ہوں گی۔یوں بھی شاہ جی ہیں‘ تو بہت ہی نفیس شخصیت کے مالک ‘لیکن اُن کی گفتگو کا دورانیہ بہت طویل ہوتا ہے ۔ بعض اوقات یہ انداز کچھ گراں بھی گزرتا ہے کہ انتہائی حساس منصب کا یہ تقاضاتو ہرگز نہیں۔سنتے آئے ہیں کہ وزات خارجہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کا چہرہ مہرہ ہوتی ہے۔اس کے سربراہ کو کسی بھی موقع پر زیادہ گفتگوسے گریز کرنا چاہیے‘ کیونکہ اس کے ایک ایک لفظ کا تجزیہ کیا جاتا ہے‘ وہ بھی بہت باریک بینی سے۔ کسی بھی محکمے یا وزارت کا سربراہ اپنے ماتحتوں کیلئے بھی رول ماڈل ہوتا ہے‘ اس لیے بھی احتیاط مزید لازم ہوجاتی ہے۔ ہمارے پاس توویسے ہی کیرئیر سفارتکاروں کی بہت کمی ہے۔ ہندوستان کے 4ہزار کیرئیر سفارتکاروں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے پاس سفارتکاروں کی تعداد 550سے زیادہ نہیں ہوگی۔اچھی تربیت کمی کو پورا کرنے میں بہرحال کسی حد تک تو ضرور معاون ثابت ہوتی ہے۔ خیر پیشہ وارانہ اُمور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے سے طے شدہ پروگرام کسی اور وقت پر اُٹھا دیا اور وقت مقررہ پر گورنرہاؤس پہنچ گئے۔ یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا تحریک انصاف میںجولاوا اندر ہی اندر پک رہاہے‘ اُس کی حدت اس نیوز کانفرنس کے دوران پوری شدت کے ساتھ محسوس کی جائے گی۔مختلف حوالوں سے ہوتی ہوئی جب شاہ جی کی گفتگو جہانگیر ترین پر پہنچی تو نیوز کانفرنس میں اچانک ہی جیسے جوش سا پیدا ہوگیا۔ سبھی ساتھی ہمہ تن گوش ہوگئے اور شاہ جی نے بھی اُنہیں مایوس نہیں کیا۔ ترکش سے پہلا تیر نکالا اور سیدھے جہانگیر ترین صاحب پر چھوڑا‘جہانگیر ترین کے سرکاری اجلاسوں میں بیٹھنے پر اعتراض کر تے ہوئے کہنے لگے کہ ان موصوف کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اجلاسوں میں بیٹھیں؟ایسا کرکے وہ عدالتی فیصلے کی بھی توہین کررہے ہیں۔دوسرا تیر گیلانی خاندان پر چھوڑا اور انکشاف کیا کہ گیلانی خاندان ‘ مسلم لیگ ن میں جانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے ۔ ساتھ ہی بلاول بھٹو کو گیلانی خاندان سے جان چھڑانے کا مشورہ بھی دے دیا۔گفتگو سنی تو پہلے سے طے شدہ پروگرام منسوخ کرنے کی تمام کلفت دُور ہوگئی۔ گورنرہاؤس آنا سود مند(فروٹ فل) ثابت ہوگیا ۔ خوشی خوشی گورنر ہاؤس سے واپسی ہوئی کہ لکھنے لکھانے کو کچھ مل گیا ۔ لازم تھا کہ اب جہانگیر ترین صاحب کا رد عمل بھی آتا‘جس کیلئے انتظار کی طوالت بہت ہی کم رہی ‘جواب آں غزل کے طور پر جہانگیر ترین صاحب بھی چند ہی گھنٹوں کے اندر میدان میں کودے۔بیان سامنے آیا کہ جہاں بھی جاتا ہوں‘ وزیراعظم عمران خان کی مرضی اور خواہش سے جاتا ہوں اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔میرے اس حق کو شاہ محمود قریشی تو کیا ‘ کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔سامنے ہوتے تو ضروریہ پوچھنے کی گستاخی کرتا کہ وہ کس حق کی بات کررہے ہیں؟سرکاری اجلاسوں میں شرکت کرنا‘ سیکرٹری صاحبان کو احکامات جاری کرنا؛ حتیٰ کہ پس پردہ کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کرنا‘ معلوم نہیں یہ اُن کے کون سے حقوق ہیں؟اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے پھرنے والے تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس صورتحال پر اُس کی طرف سے بھی دبے لفظوں میں احتجاج کیا جاتا ہے‘ جس کا یہ اصل حق ہے۔وزرا کے درمیان اختلافات بھی دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ویسے سچی بات ہے کہ حکمران جماعت میں اختلافات کا شور تو ایک عرصے سے سنا جارہا ہے‘ لیکن اب لڑائی کچھ اوپری سطح تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے اثرات سے بچنا حکمران جماعت کیلئے کافی مشکل ہوگا۔اس سیاسی کشمکش کے اثرات بیوروکریسی پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔را زدان کانوں میں یہ سرگوشیاں بھی کرتے ہیں کہ حالات نے پنجاب کی بیوروکریسی کو بھی چیں بہ جبیں کررکھا ہے۔پنجاب کے سدابہار حکمرانوں نے تو خفیہ طور پر مل بیٹھ کر حالات کا جائزہ لینا شروع کررکھا ہے۔بعض سیکرٹری صاحبان اپنے محکموں میں سیاسی مداخلت پر نالاں نظرآرہے ہیں ۔ کچھ کو گلہ ہے کہ آج ایک حکم آتا ہے‘ دوسرے ہی دن اس میں تبدیلی کردی جاتی ہے۔ زیادہ مایوسی سے بچنے کیلئے کچھ سیکرٹری صاحبان طویل رخصت پر جانے کیلئے بھی پر تول رہے ہیں۔ سنسنی خیزی کے کچھ شوقینوں کی طرف سے تو یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ آنے والے دن حکمرانوں کیلئے مزید مشکلات لے کرآرہے ہیں۔شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان لفظی جنگ تو صرف ٹریلر ہے۔یہ سب کچھ ہونے میں کسی کو کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے ہونے کے آثار کافی عرصے سے دکھائی دے رہے تھے۔اب یقینا حکمران پہلے اپنے مشکلات سے نمٹیں گے ‘تبھی تو عوام کی طرف کچھ توجہ مرکوز ہوسکے گی‘ جن کی تکلیفوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کو نئی تکلیف پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مزید اضافے کی صورت میں ملی ہے۔بری چیز شاید صرف تکلیف ہی نہیں ‘بلکہ جھوٹ اور بدعملی بھی ہوتی ہے۔بے شمار صورتوں میں یہی جھوٹ اور بدعملی تکلیف کو زیادہ تکلیف دہ بنا دیتی ہے۔ اسی کے باعث ہچکولے کھاتی ناؤ گرداب میں گھرتی چلی جارہی ہے ۔یاد پڑتا ہے کہ گزشتہ سال شاید فروری کا مہینہ تھا ‘جب موجودہ وزیرخزانہ کی بطور پی ٹی آئی رہنما گفتگو سننے کا موقع ملا تھا۔گفتگو کا رخ 2017ء میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کی طرف مڑ گیا۔ محترم نے فرمایا کہ حکومت عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے‘ سستے داموں تیل خریدتی ہے اور پھر اُس پر بھاری ٹیکس عائد کرکے مہنگے داموں فروخت کرتی ہے۔ غالبا ًکچھ ایسی باتیں بھی ہوئی تھیں کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی تو پٹرولیم مصنوعات پر عائد تمام اضافی ٹیکسز کا اگر بیک جنبش قلم خاتمہ نہ بھی کرسکی تو کم از کم انہیں بہت حد تک کم کردیا جائے گا ۔ غالباً انہی دنوں میں اسدعمر صاحب کا ایک ٹویٹ بھی نظروں سے گزرا تھا ۔اس کی تلاش میں کچھ سرکھپایا تو ٹویٹ سامنے آ گیا ‘جس کی تحریر کچھ یوں تھی ”حکومت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے کا بہانہ کررہی ہے‘ عوام کو یہ نہیں بتا رہی کہ پٹرول پر 21روپے اور ڈیزل پر26روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جارہا ہے‘اِس حکومت کے ہاتھ ہمیشہ غریب کی جیب میں جاتے ہیں‘طاقتور سے ٹیکس لیتے ہیں نہ منی لانڈرنگ روکتے ہیں‘‘۔اب گمان ہوتا ہے کہ اسد عمر صاحب یقینا جانتے ہوں گے کہ برسراقتدار آنے کے بعد اُن کیلئے یہ سب کچھ کرنا ممکن نہیں ہوگا‘ لیکن پھر بھی اُن کی طرف سے دعویٰ کیا گیا۔صرف اُن کی طرف سے ہی کیا متعدد مواقع پر خود عمران خان صاحب نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں پر اُس وقت کی حکومت کے لتے لیے۔حکومت کو موردالزام ٹہرایا کہ وہ پٹرولیم مصنوعات پر بھاری ٹیکسز وصول کرکے عوام کا معاشی قتل عام کررہی ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔اب جو صورت حال دیکھتے ہیں ‘تو بدگمانی پیدا ہوتی ہے کہ شاید جان بوجھ کر سبز باغ دکھائے جارہے تھے۔وہ سبز باغ‘ جو اُس وقت تو ووٹرز کو دکھائے جارہے تھے ‘اب حکومت کیلئے دردسر بنتے چلے جارہے ہیں۔ جب حکومت ‘عوام سے کیے وعدوں سے پیچھے ہٹے گی یا اُن کے خلاف کچھ کرے گی ‘تو سوالات تو اُٹھیں گے ہی!!۔)
Post Views - پوسٹ کو دیکھا گیا: 41