لاہور (ویب ڈیسک) پچھلے دنوں (29مارچ 2019ء) ایک عجیب سی خبر نظروں سے گزری۔ خبر بننے کے لئے کسی بات کا عجیب ہونا لازم ٹھہرتا ہے۔ شائد اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی کتا کسی انسان کو کاٹ لے تو وہ خبر نہیں بنتی لیکن اگر کوئی انسان کسی کتے کو کاٹ کھائے تو نامور دفاعی مضمون نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خبر بن جاتی ہے۔ زیرِ تذکرہ خبر اس لئے عجیب تھی کہ وہ ایک سینئر انڈین آرمی آفیسر کے منہ سے نکلی تھی (وہ خواہ ریٹائرڈ ہی کیوں نہ تھے) خبر میں بتایا گیا تھا کہ جنرل صاحب نے کہا ہے کہ پاکستانی آئی ایس پی آر کا جواب نہیں،وہ لوگ سرتاپا پروفیشنل سولجر ہیں اور انہوں نے ہائی برڈ وار فیئر کے اس دور میں یہ ثابت کیا ہے کہ جنگیں اب روائتی جنگ و جدل کے تصورِ حرب و ضرب سے نہیں جیتی جاتیں بلکہ ان کے جیتنے یا ہارنے کا دار و مدار ہائی برڈ طریقہ ء جنگ پر استوار ہے جس میں فولاد اور بارود کے ہتھیار استعمال نہیں ہوتے بلکہ دماغ اور ذہن کے وہ ہتھیار استعمال کئے جاتے ہیں جو سپاہی کے علاوہ سویلین کو بھی یکساں متاثر کرتے ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو اس انڈین آرمی آفیسر کا حالیہ انڈو پاک سٹینڈ آف (26فروری 2019ء تا حال) پر یہ تبصرہ کہ پاکستان نے ہندوستان پر ہائی برڈ طریقہ ء جنگ کے تناظر میں ایک بڑا پوائنٹ سکور کیا ہے، پاکستان کے آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ کے سارے وابستگانِ دامن کے لئے ایک بیش بہا خراجِ تحسین ہے۔اس آفیسر کا نام سید عطا حسنین ہے وہ لندن میں ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے جس کا موضوع تھا: ’’جموں اور کشمیر میں جمہوریت بمقابلہ دہشت گردی‘‘۔۔۔ یہ سیمینار انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز (IISS) کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا۔ اس سیمینار سے بعض دوسرے مسلم اور غیر مسلم دانشوروں اور ریٹائرڈ بیورو کریٹس نے بھی خطاب کیا۔ لیکن جو بات تمام حاضرین و سامعین کو چونکا گئی وہ اس انڈین سینئر آرمی آفیسر کی طرف سے پاکستانی افواج کے ترجمان ادارے کی مدح سرائی تھی۔۔۔ ان کے الفاظ تھے: ’’میں پاکستان کو اس بات پر پورے کے پورے نمبر دیتا ہوں کہ اس نے انفرمیشن سٹرٹیجی کو کمال مہارت سے استعمال کیا۔آئی ایس پی آر (ISPR) نے پاکستان کے لئے جو کام کیا وہ بے مثال و بے نظیر تھا۔ انڈیا نے 1990ء کے عشرے ہی میں کشمیر کے موضوع پر اپنے بیانیہ کی وقعت و اہمیت گنوانا شروع کی تھی اور تب سے لے کر اب تک بھارت اس انحطاط پذیر رجحان کو روک نہیں سکا۔‘‘۔۔۔ ان کا یہ فقرہ جتنا مختصر تھا اتنا ہی معانی و مطالب سے لبالب تھا۔ انہوں نے کہا : ’’انڈیا میں ہر شخص جانتا ہے کہ آئی ایس آئی کیا ہے لیکن کسی کو یہ خبر نہیں کہ آئی ایس پی آر کیا ہے۔۔۔ صرف چند ملٹری پروفیشنل ہیں جو جانتے ہیں کہ ISPR کیا ہے‘‘۔جنرل عطا حسنین کے پروفیشنل کیرئیر کا ہم آگے چل کر کچھ مزید ذکر کریں گے۔ لیکن اس سیمینار میں تو انہوں نے پاکستانی افواج کے میڈیائی ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی تحسین و آفرین کے پل باندھ دیئے۔ جنرل عطاء حسنین کو اگر آپ کسی ٹی وی چینل پر بولتے سنیں تو آپ کو پاکستانی خواتین ٹی وی اینکرز کی طرار گوئی بھول جائے گی۔ ان کے دماغ میں شائد خواتین کی تیز گفتاری کے سارے قرینے جمع ہو گئے ہیں۔ سننے والا ابھی سوچتا ہی رہتا ہے کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں اور دریں اثناء وہ مزید آگے نکل جاتے ہیں۔26فروری کو جب انڈیا نے بالا کوٹ پر فضائی حملہ کیا تھا تو اس شب جنرل عطا حسنین کی ٹی وی گفتگو سننے والی تھی۔ انہوں نے بڑی روانی اور برجستگی سے یہ کہا تھا : ’’انڈین ائر فورس نے پاکستان کے کسی ملٹری ٹارگٹ پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی سٹرٹیجک اہمیت کے سویلین ہدف کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے تو ’صرف اور صرف‘ دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملہ کیا ہے‘‘۔۔۔ اور اس کے بعد یہ تبصرہ بھی کیا : ’’ہماری انٹیلی جنس کو اطلاع ملی تھی کہ پلوامہ پر حملے (14فروری) کے بعد پاکستان کو توقع تھی کہ اس پر ایک بڑا وار کیا جانے والا ہے اس لئے اس کے سارے ’اکابرین دہشت گرد‘‘ وسطی اور جنوبی پنجاب سے نکل کر خیبرپختونخوا کے گھنے جنگلوں میں جا چھپے تھے۔ یہی جنگل ہیں جن میں پاکستانی دہشت گردوں کا ایک بڑا (لیکن ذیلی) ہیڈکوارٹر بھی قائم ہے۔انڈیا کو جونہی یہ خبر ملی، اس نے اپنے لڑاکا اور بمبار طیاروں کو بالاکوٹ پر حملہ کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔ اس حملے میں وہ 350پاکستانی دہشت گرد ہلاک ہو گئے جو پاکستانی دہشت گردوں کی گویا کریم تھے۔ ہمارے کسی طیارے کو کسی مزاحمت کا سامنا نہ ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف بالا کوٹ میں دہشت گرد لمبی تان کر سو رہے تھے بلکہ پاکستانی فضائیہ بھی محوِ استراحت تھی!‘‘میں نے جب جنرل حسنین کی یہ باتیں سنیں تو دکھ تو ضرور ہوا لیکن کیا کر سکتا تھا، کسمسا کر رہ گیا۔ ان کے علاوہ انڈیا کے ای (E) میڈیا پر دوسرے کئی ریٹائرد جرنیلوں اور حاضر سروس بیورو کریٹوں نے اپنی اپنی ڈفلی بجائی اور راگ الاپے۔۔۔ یہ انڈیا کی پرانی عادت ہے۔11مئی 1998ء کو اس نے جب پوکھراں میں 5جوہری دھماکے کر دیئے تھے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے، زی (Zee) ٹی وی پر ٹاک شوز کے تانتے بندھ گئے تھے۔ 11مئی سے 28مئی 1998ء تک سارے انڈین ٹی وی چینل اور سارا انڈین پرنٹ میڈیا پاکستان پر طعن و تشنیع کے پہاڑ توڑ رہا تھا۔ اس کے سیاستدان بے قابو ہوئے جا رہے تھے۔ پوکھراں کے بعد جن ممالک نے اپنے سفیروں کو احتجاجاً دہلی سے واپس بلا لیا تھا ان کی تضحیک و توہین کی جا رہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ اب انڈیا ’’پاکستانی مقبوضہ کشمیر‘‘ ہی نہیں، سارے شمالی علاقہ جات کو قبضے میں لے آئے گا اور پاکستان دیکھتا رہ جائے گا۔۔۔ لیکن 28مئی 1998ء کو جب پاکستان نے انڈیا کے پانچ دھماکوں کے جواب میں 6دھماکے داغ دیئے تو محاذ خاموش ہو گیا، ٹھنڈ پڑ گئی اور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔۔۔یہ انڈیا کی پرانی عمارت ہے اور اس عادت کا مظاہرہ پاکستان کو 26فروری کو دیکھنے کو ملا۔ لیکن جب 27فروری کو پاک فضائیہ نے وہ کارنامہ انجام دیا جو مگ۔21 اور ایس یو۔30 کی بربادی اور انڈین پائلٹ کی گرفتاری پر منتج ہوا تو انڈیا کو 1998ء کے بعد دوسری بار ’’ٹھنڈ‘‘ پڑ گئی۔۔۔ جنرل حسنین نے 27فروری کے پاکستانی ایکشن پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ وہ سوچتے رہے ہوں گے کہ اب کیا کیا جائے۔ ان کی باتیں بالعموم جذباتی شدت کا مظاہرہ نہیں ہوتیں بلکہ بڑی مدلل ہوتی ہیں۔27فروری کے بعد جنرل صاحب نے ایک ماہ تک انتظار کیا اور پھر اپنی حکومت، افواج اور بیورو کریسی کو ایسا جواب دیا جو ان کے استدلالی طرزِ تخاطب کا آئینہ دار تھا۔ انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً کل آبادی کا 11فیصد ہے جو تقریباً 17،18کروڑ بنتی ہے۔ اس آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو انڈین آرمڈ فورسز میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے اور آفیسرز لیول پر تو یہ تعداد اور بھی کم ہے۔ جنرل آفیسرز رینک میں 1947ء سے لے کر اب تک صرف 5،7جنرل ہی ہوں گے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے مقابلے میں انڈیا میں سکھوں کی آبادی انڈیا کی کل آبادی کا صرف 2% (بلکہ اس سے بھی کم) ہے لیکن انڈین مسلح افواج میں سکھوں کا حصہ 20% ہے۔ دو سکھ آفیسرز، انڈین آرمی کے چیف بھی رہے ہیں جبکہ کوئی مسلمان آفیسر، کبھی آرمی چیف نہیں بنایا گیا۔ موجودہ آرمی چیف جنرل بپن روات جب آرمی چیف بنائے گئے تھے تو ان کو سنیارٹی کے حساب سے یہ منصب نہیں دیا گیا تھا۔ مودی نے دو سینئر جرنیلوں کو سُپر سیڈ (Supercede) کرکے بپن کو چیف بنایا تھا۔ وہ دو آفیسرز لیفٹیننٹ جنرل بخشی اور لیفٹیننٹ جنرل محمد علی حارض تھے جو بالترتیب سنٹرل اور سادرن آرمی کمانڈ کے آرمی کمانڈر تھے۔ تب یہ امید ہو چلی تھی کہ شائد محمد علی حارض (Harez) انڈیا کے پہلے مسلمان آرمی چیف بن جائیں۔۔۔۔ لیکن مودی کے وزیراعظم ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن تھا؟ انڈیا کی مسلح افواج کی تاریخ میں انڈین ائر فورس کے ایک چیف، مسلمان تھے ان کا نام ائر چیف مارشل، آئی ایم لطیف تھا۔۔۔لیکن آرمی میں جنرل آفیسرز کی تعداد جیسا کہ پہلے کہا گیا صرف پانچ سات سے اوپر نہیں جا سکی۔ ان میں میجر جنرل افسر کریم، لیفٹیننٹ جنرل سید عطا حسنین اور لیفٹیننٹ جنرل محمد علی حارض شامل ہیں۔ یہ آفیسرز اہم پروفیشنل مناصب پر فائز رہے۔ سب نے بریگیڈ، ڈویژن، کور اور آرمی کمانڈ کیں اور 1962ء ،1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا اور کارہائے نمایاں انجام دیئے جن کے صلے میں ان کو کئی ایوارڈ بھی دیئے گئے۔ جہاں تک لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید عطا حسنین کا تعلق ہے تو ان کے والد بھی انڈین آرمی میں میجر جنرل تھے، ان کی اہلیہ صبیحہ حسنین ایک ملٹی نیشنل فرم میں چیف ایگزیکٹو ہیں اور ان کے بڑے بھائی سید رضا حسنین انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (IAS) میں ملازمت کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔لیفٹیننٹ جنرل عطا حسنین نے 1974ء میں انڈین آرمی جوائن کی اور 2013ء میں 39برس سروس کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔وہ ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوئے اور ان کو گڑھوال رائفلز کی 4بٹالین میں کمیشن ملا۔ انہوں نے پہلے اپنی بٹالین (4گڑھوال) کمانڈ کی۔ موزمبیق، روانڈا اور سری لنکا میں خدمات انجام دیں۔ جموں اور کشمیر میں فوجی ملازمت کا ایک بڑا عرصہ گزارا۔ اوڑی میں 12انفنٹری بریگیڈ کی کمانڈ کی۔ اس کے بعد بارہ مولا میں 19انفنٹری ڈویژن اور سری نگر میں 15کور کمانڈ کی۔ اس کے بعد بھوپال (مدھیہ پردیش) میں 21کور بھی کمانڈ کی۔ 2012ء میں ان کو آرمی ہیڈکوارٹر میں ملٹری سیکرٹری مقرر کیا گیا اور وہیں سے وہ ریٹائر ہوئے۔وہ صاحبِ سیف و قلم جنرل ہیں۔ بہت معروف انٹرنیشنل دفاعی سیمیناروں میں شرکت کرتے رہتے ہیں، ملک کے طول و عرض میں مختلف نامور اداروں میں لیکچر دیتے ہیں۔ انہوں نے انڈین آرمی کی اینٹلیکوچل نشوونما میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے، کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور کئی پروفیشنل ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔۔۔ اس عسکری اور ادبی قامت کا کوئی آفیسر اگر پاکستان ملٹری کے کسی ادارے کی تعریف اور اپنے ادارے کی تنقیص کرتا ہے تو یہ پاکستان کی مسلح افواج کے لئے باعثِ افتخار امر ہے