لاہور : وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی صاف گوئی بلکہ برہنہ گوئی نے ان سب کے منہ بند کردیئے ہیں جوکچھ عرصے سے ایسی قیاس آرائیاں تسلسل کے ساتھ کر رہے تھے کہ تحریک انصاف کے دو بڑوں یعنی جہانگیر ترین اور شاہ صاحب کے درمیان سیزفائر ہوگیا، لیکن جہانگیر ترین کے متعلق نامور کالم نگار قدرت اللہ چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے آج جن خیالات کا اظہار کیا اس سے تو لگتا ہے کہ یہ ساری ہوائیاں یونہی اڑائی جارہی تھیں۔ ویسے تو تحریک انصاف میں بہت سارے گروپ ہیں جو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن ان سب کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کو دل و جان سے اپنا لیڈر مانتے ہیں اور اگر کوئی چھوٹا موٹا منصب دار ان کے آڑے آنے کی کوشش کرے تو ان کا صاف جواب یہی ہوتا ہے کہ انہیں وزیراعظم کی قیادت پر اعتماد ہے اس لئے کوئی دوسرا کون ہوتا ہے جو ان سے کچھ پوچھے، یاد پڑتا ہے جن وزیروں، مشیروں وغیرہ کو ماضی میں ان کے مناصب سے ہٹایا گیا انہوں نے ایسا ہی موقف اختیار کیا تھا، وزیر اطلاعات فواد چودھری اور ایوان وزیراعظم کے ترجمان نعیم الحق کے درمیان آج کل پی ٹی وی کے ایم ڈی کے معاملے پر کھلی کھلی چپقلش جاری ہے، لیکن دونوں کا موقف ہے کہ انہیں وزیراعظم کا اعتماد حاصل ہے۔ اس اعتماد کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کہتے ہیں پورے اعتماد سے کہتے ہیں۔ اس اعتماد افزائی کے رولے غولے میں چاہے پی ٹی وی کا بھٹہ پوری طرح بیٹھ جائے، اس کی کسی کو پروا نہیں۔ شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین کو ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے عمر بھر کے لئے نااہل ہو چکے ہیں اس لئے جب وہ کابینہ کے اجلاس میں بیٹھتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کو اعتراض کا موقع مل جاتا ہے اس لئے انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ جہانگیر ترین کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ نہ صرف کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں بلکہ موقع محل کی مناسبت سے بعض سرکاری اجلاسوں کی صدارت بھی فرما لیتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ وہ گیٹ کریش کرکے تو ایسا نہیں کرسکتے، وزیر اعظم اگر انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے، کیونکہ آج ہی پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے یہ بیان دیا ہے کہ وزیراعظم جسے چاہیں اجلاس میں بلائیں، اگر ایسا ہے تو شاہ محمود قریشی کا گلہ جہانگیر ترین سے نہیں، وزیراعظم سے بنتا ہے۔ لیکن شاہ محمود قریشی براہ راست جہانگیر ترین کو تو مفت مشورے سے نوازتے ہیں۔ وزیراعظم سے نہیں کہتے کہ وہ ایک نااہل شخص کو کابینہ کے اجلاس میں کیوں بلاتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو البتہ یاد رہنا چاہئے کہ اس وقت وہ جس حکومت کے وزیرخارجہ ہیں اس میں بھان متی کا کنبہ جوڑنے کے لئے جہانگیر ترین کا کتنا کردار ہے۔ انہوں نے نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی ہواؤں کا رخ پہچان کر ان سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کر دیئے تھے جن کا کوئی بھی رکن اسمبلی میں موجود تھا، یہ ان کے جہاز ہی کا کمال تھا کہ بلوچستان سے اختر مینگل اور کراچی سے ایم کیو ایم (پ) نے حکومت میں شمولیت پر ہامی بھری، جہانگیر ترین کا کمال یہ تھا کہ جس نے جو مانگا انہوں نے انکار نہیں کیا، وزارتوں کے طلب گاروں کو وزارتیں دلوادیں، تحریری معاہدے کے مطالبے کرنے والوں سے تعاون کا تحریری معاہدہ کرلیا۔ آزاد امیدوار تو ویسے ہی من مرضی کے مالک ہوتے ہیں وہ قانونی طور پر معینہ مدت کے اندر کسی بھی جماعت میں شامل ہونے کے لئے آزاد ہوتے ہیں اور اگر کوئی آؤ بھگ کرنے والا ہو اور وہ بھی جہانگیر ترین جیسی شخصیت، تو پھر ظاہر ہے ان کی ترجیح تو تحریک انصاف ہی ہوسکتی تھی۔ یہ سب آزاد منش لوگ تحریک انصاف میں جمع ہوگئے۔ باقی جماعتوں نے تعاون کی یقین دہانی کرادی اور یوں عمران خان چار ووٹوں کی اکثریت سے وزیراعظم بن گئے۔ اب اگرچہ اختر مینگل کو شکائتیں ہیں کچھ دوسرے اتحادی بھی مزید وزارتیں مانگ رہے ہیں۔ حالانکہ اس وقت وزرا، وزرائے مملکت، مشیروں اور معاونین خصوصی کو ملا کر وفاقی کابینہ 45ارکان پر مشتمل ہے لیکن پھر بھی کابینہ میں توسیع کی نویدیں جاری ہے، سادگی کے دعوے بھی ساتھ ساتھ کئے جارہے ہیں بے شک اجلاسوں میں سادگی اختیار کی جاتی ہے، لیکن جو وزیر بنے گا وہ تنخواہ اور مراعات تو لے گا، گاڑی اور سٹاف بھی اس کا استحقاق ہوگا۔ اسلام آباد میں گھر بھی لینا چاہے گا، اس لئے سادگی کا کلچر اس ’’توسیع پسندی‘‘ میں بہہ جاتا ہے لیکن جو تعاون کر رہے ہیں وہ اپنے تعاون کا صلہ بھی تو مانگتے ہیں۔ اگر کسی جماعت کے ساتھ دو وزارتیں طے ہوئی تھیں اور اسے فی الحال ایک ملی ہے تو دوسری وزارت مانگنا تو ان کا حق ہے۔ یہ وعدے وعید چونکہ جہانگیر ترین نے کئے تھے اس لئے کابینہ کے اجلاسوں میں ان کی موجودگی ضروری ٹھہرتی ہے کیونکہ اگر کسی حلیف کی ناراضی بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ جائے کہ وہ حکومت ہی چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائے تو پھر حکومت کتنے دن قائم رہ سکتی ہے۔ایسی صورت حال کو ترین ہی سنبھال سکتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اگرچہ پارٹی کے وائس چیئرمین ہیں لیکن وہ جہانگیر ترین کو تضحیک کا نشانہ بنا کر پارٹی کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر بھی ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہتے ہیں کہ ان کی سیاست تو عمر بھر کے لئے ختم ہوگئی ہے اس لئے وہ کابینہ کے اجلاس میں کیوں آتے ہیں، لیکن جہانگیر ترین کا جواب ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ اپنے وزیراعظم کی ہدایت پر کرتے ہیں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے، پارٹی میں ان اختلافات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کے لئے ابھی کچھ عرصہ انتظار کرنا ہوگا جو حلیف تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں ان کی جانب سے کوئی بھی فیصلہ حکومت کے لئے مشکل پیدا کردے گا۔ لیکن ابھی صدائے جرس نہیں آئی، اس جانب کان ضرور لگے ہوئے ہیں