ابھی تو پٹرول اورمہنگائی چیخیں نکال رہی ہے، آئی ایم ایف کی شرائط مان لینے کے بعد آٹے دال کا بھائو بلکہ ّّاسد بھائوٗٗ معلوم ہوجائیگا، صف اول کے تجزیہ نگار اور کالم نگار نے بتا دیا اسد عمر کس ایجنڈے پر ہے!
بس یہی اک بات سننے کی کسر رہ گئی تھی کہ ….حسن نثار اپنے آج کے کالم میں اہم ترین حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں……’’پاکستان کے پاس صرف دو راستے باقی رہ گئے ہیں، دیوالیہ ہوجائے یا آئی ایم ایف پروگرام لے ‘‘ اور ظاہر ہےآئی ایم ایف جو کچھ دے گا، سو فیصد اپنی شرائط پر دے گا اور دھندے میں دل نہیں صرف دماغ سے کام لیا جاتا ہے۔ اسد عمر کس ایجنڈے پر ہے کہ وہ بات بتانے میں تقریباً8مہینے لگا دئیے جو مجھ جیسے احمقوں، اناڑیوں کو روز اوّل سے معلوم تھی۔ سچ یہ کہ سچ یا یوں کہئے کہ پورا سچ اب بھی نہیں بولا جارہا لیکن کب تک؟ اگست تک سورج سوا نیزے پر آجائے گا تو آٹے دال کا اصل بھائو بلکہ ’’اسد بھائو‘‘ سب کو معلوم ہوجائے گا۔ یہ بات بھی درست نہیں کہ پاکستان کے پاس صرف دو راستے ہیں کیونکہ اک تیسرا راستہ بھی ہے لیکن ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ اور وہ بھی عوام سے اس لئے تیسرے رستہ پر لعنت بھیجو کہ یہ تو وہ راستہ ہے جس کے بارے فیض نے کہا تھا’’جو رہ بھی ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے‘‘لکھ لکھ کر کتنے قلم گھسا دئیے کہ ……….اس پورے نظام کو تیزاب سے غسل دو’’جلادوں کو اوور ٹائم دو‘‘’’گلوٹین تین شفٹوں میں کام کرے‘‘لیکن انہیں یہ علامتی مشورے ملامتی ہذیان محسوس ہوئے ورنہ کیا انہیں اب ہوش آتی اور اب گیس چوروں کے خلاف کریک ڈائون کا حکم دیتے؟ اور کون ان سے پوچھے کریکو! یہ کریک ڈائون کرے گا کون؟ قدم قدم پر تو چور اور چوکیدار بھائی وال ہیں۔صدقے جائوں جمہوریت کے اس حسن پر سے کہ قومی ائیر لائن کنگال ہوگئی، ذاتی ائیر لائنز کو لعل و جواہر لگتے گئے اور کیا یہی کچھ تقریباً ہر شعبہ میں نہیں ہوا؟ پی ٹی آئی میں واحد آدمی تھا وزیر خزانہ جو دیر سے جانتا تھا کہ اقتدار ملنے پر اسے کون سی ذمہ داری ملے گی؟ اور مہینوں بعد بھی ’’تیاری‘‘ کا یہ عالم کہ بدترین کنفیوژن کی حالت میں سوچ رہے ہیں کہ ……….دیوالیہ ہوجائیں یاآئی ایم ایف کے پاس جائیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک انتہائی مہذب، محتاط اور ملائم انداز میں کہتا ہے ’’2020تک پاکستان کی اقتصادی ترقی خطے میں سب سے کم رہے گی، ترقی(؟) کی شرح اس سال کم اگلے سال مزید کم۔ مہنگائی میں اضافہ اور روپے کی قدر پر دبائو رہے گا۔ ہماری شرح نمو 3.9 سے کم ہو کر 3.6 فیصد رہ جائے گی جبکہ بھارت کی شرح نمو 7.2 ہو گی۔‘‘’’اے ڈی بی‘‘ نے 2020تک کی معاشی منظر کشی تو کردی لیکن یہ نہیں بتایا کہ 2020کے بعد کا منظر کیسا ہوگا؟