لاہور (ویب ڈیسک) وزیراعظم نوازشریف کے خلاف جب اپوزیشن کی جماعتیں اور غیرسیاسی طاقتیں ایک صفحے پر آ گئیں، تو دیکھتے ہی دیکھتے سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوتا گیا۔ جولائی 2018کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کے لئے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہوا۔ جنوبی پنجاب میں جو افراد سالہا سال سے (ن)لیگ کے ٹکٹ پر نامور کالم نگار الطاف حسن قریشی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کامیاب ہوتے آئے تھے، ان میں سے بیشتر الیکٹ ایبلز نے یا تو (ن)لیگ کے ٹکٹ واپس کر دئیے اور آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا یا چند ماہ پہلے تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے۔ انتخابات کے دن پولنگ اسٹیشنوں پر ’’غیرمعمولی‘‘ انتظامات کئے گئے تھے،مخالفین کے مطابق سیاسی پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹ باہر نکال دئیے گئے اور انتخابی نتائج کے اعلان میں پینتیس گھنٹوں کی تاخیر ہوئی۔ شور اُٹھا کہ انتخابات میں مداخلت ہوئی ہے۔ مہینوں کی تہ در تہ منصوبہ بندی کے باوجود تحریکِ انصاف مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آ سکی۔ تب سیاست کے پیچ و خم کے ماہر جناب جہانگیر ترین میدان میں اُترے اور آزاد ارکانِ اسمبلی کو اپنے جہاز میں بھر بھر کے بنی گالا لاتے۔ اُن کی عمران خان سے ملاقاتیں ہوتیں اور وہ تحریکِ انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیتے۔ ترین صاحب نے (ق)لیگ کی قیادت کا عمران خان سے معاہدہ کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح پنجاب میں تحریکِ انصاف کا اقتدار میں آنا ممکن ہوا۔ مرکزی سطح پر شاہ محمود قریشی نے ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی سے رابطے کئے اور اُن کی سیاسی کوششوں سے ان دونوں جماعتوں نے تحریکِ انصاف کی حمایت کا اعلان کیا، جس کی بدولت جناب عمران خان کا قائدِ ایوان کے طور پر انتخاب عمل میں آیا۔ اِس اعتبار سے جناب جہانگیر ترین اور جناب شاہ محمود قریشی پارٹی کے بہت بڑے محسن ہیں، لیکن اب اِن دونوں شخصیتوں کے درمیان الفاظ کی جنگ حکمران جماعت کے قدم اُکھاڑ دینے کا باعث بن سکتی ہے۔ تحریکِ انصاف کے اندر مختلف سطحوں پر اختلافات کی ہوش اُڑا دینے والی کہانیاں سوشل میڈیا پر طوفان اُٹھا رہی ہیں۔ پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا اور مرکز میں بھی ان سے حکومت کے بارے میں غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے اور کھلے عام باتیں ہو رہی ہیں کہ حکومتی معاملات سے بےخبر عمران خان سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنے اور پاکستان کو سنگین معاشی بحران سے نکالنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، چنانچہ عوام کی طرح اسٹیبلشمنٹ بھی اُن کی ہر شعبے میں کارکردگی سے حد درجہ مایوس دکھائی دیتی ہے۔ معاشی بحران اِس لیے گمبھیر ہوتا جا رہا ہے کہ وزیراعظم نے جس معاشی ٹیم کا انتخاب کیا ہے، اس کے سربراہ جناب اسد عمر ہیں۔ اُن کی ’’پُراسرار‘‘ صلاحیتوں سے وہ بہت زیادہ متاثر ہیں، حالانکہ اُنہیں ملکی معیشت کی وسعتوں اور گہرائیوں کا کوئی ادراک نہیں اور وہ محض کارپوریٹ سیکٹر کا محدود تجربہ رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے ملکی معیشت پر خوفناک تجربات کرنا شروع کر دئیے ہیں، جن سے معاشی معاملات اُلجھتے اور ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ ناتجربہ کاری اور عقل کل ہونے کے خبط نے معیشت کو اُدھیڑ ڈالا ہے اور حکومت کا ہر قدم عوام کی مشکلات اور غربت میں ناقابلِ تصور اضافہ کر رہا ہے۔ اشیائے خورونوش، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اِس پر سسکتے عوام کو یہ ’’مژدہ‘‘ سنایا جا رہا ہے کہ ابھی مہنگائی کا ایک بڑا سونامی آئے گا۔ آئی ایم ایف سے قرضے کے معاملات جو معمول کی سطح پر طے ہوتے رہے ہیں، ان میں وزیر خزانہ کے غیردانش مندانہ بیانات اور اقدامات سے پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں اور جناب وزیراعظم کو بگڑی ہوئی صورتِ حال کو قابو میں لانے کے لیے آئی ایم ایف کے چیف سے پاکستان سے باہر مذاکرات کرنا پڑے۔ حکومت کی غیر متوازن معاشی حکمت ِ عملی کے سبب کاروبار بڑی حد تک ٹھپ ہے، محصولات میں خطرناک حد تک کمی آ چکی ہے، جبکہ ڈالر کے بارے میں پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ اگلے دو چار ماہ میں 160روپے کی حدوں کو چھونے لگے گا۔ ان ہولناک وسوسوں اور ہوش و حواس اُڑا دینے والے اندیشوں میں بھارت کی جارحانہ پالیسی نے پاکستان کے دفاعی مسائل میں گوناگوں اضافہ کر دیا ہے۔ ہماری مسلح افواج کی مؤثر اور قابلِ تحسین کارروائیوں نے اس کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دئیے ہیں اور ایک دنیا پر اُن کی پیشہ ورانہ مہارت اور ایمانی قوت کا سکہ بیٹھ گیا ہے مگر اب وہ مسلسل ہائی الرٹ ہیں، جس کے باعث فوجی اخراجات میں بڑا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خطرہ پیدا ہو چلا ہے کہ معاشی ابتری میں دفاعی اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا، چنانچہ ہر سطح پر اختلافات پر قابو پانے اور مفاہمت کی فضا کو فروغ دینے کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ عمران خان اس اہم ترین قومی ضرورت سے یکسر بیگانہ دکھائی دیتے ہیں اور اپوزیشن سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں ہیں۔ اُن کی ذاتی اَنا اُنہیں اپوزیشن لیڈر جناب شہباز شریف سے ہاتھ ملانے اور آئینی تقاضوں کے مطابق ’’بامعنی مشاورت‘‘ کی اجازت نہیں دیتی۔ اُن کے غیرلچک دار طرزِ عمل نے اُن کا کرپشن کا وقت بہ وقت سیاسی نعرہ بھی بڑی حد تک غیر مؤثر کر دیا ہے اور شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے برسرِعام اختلافات نے پیغام دیا ہے کہ کوئی بڑی تبدیلی جلد آنے والی ہے۔ جناب شاہ محمود قریشی کا موقف اصولی ہونے کے باعث درست معلوم ہوتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے وزیراعظم کے معتمدِ خاص جناب جہانگیر ترین کو زندگی بھر کے لئے انتخابات میں حصہ لینے اور عوامی منصب سنبھالنے کے لئے نااہل قرار دے دیا تھا۔ وہ اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے۔ عدالتی فیصلے کے بعد اُنہیں اِس عہدے سے دستبردار ہونا پڑا، لیکن وزیراعظم کی رضامندی سے اُنہوں نے کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہونا اور مختلف سرکاری محکموں کے اُمور میں دخل دینا شروع کر دیا۔ اِس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گورنرِ پنجاب چوہدری محمد سرور کے ہمراہ پریس کانفرنس میں جناب جہانگیر ترین کے اِس طرزِ عمل پر شدید نکتہ چینی کی اور اسے پارٹی کا دہرا معیار قرار دیا۔ یہ بھی کہا کہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنا بھی کسی طور مناسب نہیں۔ شاہ محمود قریشی وزیراعظم عمران خان کی غیرموجودگی میں قائدِ ایوان کا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور بیشتر قومی اُمور سلجھانے میں پیش پیش ہیں۔ اُنہوں نے بڑی معنی خیز بات کہی ہے کہ میں نے سیاست میں 35سال گزارے ہیں اور اس دوران گھاس نہیں کاٹی۔ وہ دراصل بائیس سالہ جدوجہد کا جواب دے رہے تھے۔ اُن کے اندر قومی قیادت کے جوہر پائے جاتے ہیں۔ سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ اِس اندر کی جنگ کا فیصلہ چند ہی ماہ میں ہو جائے گا۔