میرے پسندیدہ مصنف ول ڈیورنٹ کا یہ فقرہ مجھے اکثر یاد آتا ہے ’’کچھ حضرات کے لیے خاموشی گولڈن ہوتی ہے‘‘ یعنی وہ علم و حکمت کے موتی نہ ہی بکھیریں تو ان کا بھرم قائم رہ سکتا ہے۔ آج یہ فقرہ مجھے اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کا ایک ’’گولڈن‘‘ بیان پڑھ کر یاد آیا۔ بلکہ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ یہ فقرہ ان کی ذات گرامی کے ساتھ ’’چپک‘‘ گیا ہے اور اب اسے اتارنا یا مٹانا ممکن نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صوبائی وزیر پنجاب جیل خانہ جات ملک حاکمین خان کے منہ سے بھی ایک ایسی ہی بات نکل گئی تھی جو ان کی بھولی بھالی شخصیت کے ساتھ چپک گئی اور ان کی پہچان بن کر رہ گئی۔ وہ زندگی کے آخری سانس تک اسے مٹانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔ ملک حاکمین خان نے ایک جلسہ عام میں عوام کے دکھ درد سے بھرپور جوشیلے خطاب میں یہ کہہ دیا کہ ہم ’’پنجاب میں جیلوں کا جال بچھا دیں گے‘‘ پھر یہ فقرہ ملک حاکمین خان کی پہچان بن گیا۔ اسی جوش خطابت کا تازہ تحفہ اسپیکر خیبر پختونخوا کا یہ فقرہ ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ عوام دو کے بجائے ایک روٹی کھائیں۔ عوام کی خدمت کے جذبے سے شرابور اسی طرح کے فقرے سن کر اپوزیشن لیڈران کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ عمران خان غربت نہیں بلکہ غریبوں کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ محترم اسپیکر صاحب کا یہ فقرہ پڑھ کر مجھے وہ ملکہ یاد آگئی جس کے محل کے سامنے جب بھوک کے مارے عوام نے غیظ و غضب سے یہ نعرے بند کرنا شروع کئے کہ ہمیں روٹی دو تو بھولی بھالی معصوم ملکہ نے ’’فرمایا‘‘ تھا کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھائو۔ مجھے اندیشہ نہیں بلکہ یقین ہے کہ ایک روز اسپیکر خیبر پختونخوا یا موجودہ حکمرانوں کا کوئی اور ’’نابغہ‘‘ وزیر عوام کو ایسا ہی مشورہ دے گا کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کھائو۔ یہ اس زرعی و زرخیز ملک کے حکمرانوں کا مفت کا مشورہ ہے کہ جو گندم کی پیداوار کے حوالے سے عالمی سطح پر آٹھویں نمبر پہ آتا ہے۔ جہاں بجلی گیس ملے نہ ملے لیکن گندم کی قلت نہیں ہو سکتی۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس ملک کی زمین پر چلنے والے ہر جاندار کیلئے خوراک کا بندوبست کر دیا ہے البتہ اگر حکمران کسان کش پالیسیاں اپنانے پر تُل جائیں تو بات اور ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسپیکر خیبر پختونخوا نے پیرس میں وہ جگہ نہیں دیکھی جہاں بھوکے عوام نے شاہی خاندان کے افراد کو پھانسیاں دیں۔ میں نے وہ مقامِ عبرت کئی بار دیکھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے بھی وہ جگہ ضرور دیکھی ہو گی۔ دیکھنا اور بات ہے سبق سیکھنا یا عبرت حاصل کرنا یا تاریخ کے شعور کو سمجھنا دوسری بات۔
ہمارے بچپن میں اپریل فول کا بڑا رواج تھا اور لوگ بڑے بڑے فنکارانہ انداز سے فول بنایا کرتے تھے۔ اب لوگ فرسٹ اپریل کو بھول گئے ہیں کیونکہ چار اپریل کا سوگ ذہنوں پر چھا گیا ہے، اب اپریل کا مہینہ بھٹو کی پھانسی کی یاد دلاتا ہے اور پت جھڑ کے موسم میں لوگوں کو مزید اداس اور غمگین بنا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بھٹو تاریخ کا حد درجہ شعور رکھتا تھا۔ اس نے معافی مانگنے، جلاوطنی قبول کرنے یا فوجی حکومت سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے پھانسی کو ترجیح دی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ تاریخ کے صفحات پر ڈرپوک یا سودے باز سیاست دان و حکمران نقوش نہیں چھوڑتے۔ تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش بہادر اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والے حکمران ثبت کرتے ہیں۔
میں تاریخ ِ پاکستان کا ایک ادنیٰ طالبعلم ہوں اور اکثر اوقات تاریخ کے صفحات پر بکھرے ہوئے حکمرانوں کے ’’نقوشِ پا‘‘ دیکھ کر انہیں سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میں عمران خان کا بھی بہی خواہ ہوں اور اسے امید کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ میں نے اس کی تصنیف صرف پڑھی ہی نہیں بلکہ چند برس قبل اس پر لکھا بھی تھا۔ اس کی کتاب کے بولتے الفاظ یہ احساس دلاتے ہیں کہ عمران خان اپنی تاریخ کا شعور رکھتا ہے۔ اس کا وژن بھی ہے اور وہ خدمت کا جذبہ بھی رکھتا ہے البتہ یہ الگ بات کہ وہ جس روایتی انداز اور ’’نیم دروں‘‘ طریقے سے اصلاحات لانا چاہتا ہے اس میں کامیابی کے امکانات مدہم ہیں۔ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور روز افزوں مہنگائی کو حکمرانوں کی ناتجربہ کاری اور کم فہمی کے خانے میں ڈال کر دل کو تسلی دی جا سکتی ہے لیکن ان سمجھوتوں، یوٹرنز اور ’’انحرافات‘‘ کا کیا کِیا جائے جنہوں نے اس عمران کا امیج تار تار کر دیا ہے جو اصولوں، اخلاقیات، شفافیت اور سیاسی بلند نظری کے دعوے کرتا تھا۔ ان دعوئوں میں لوگوں کو اور ہم جیسے طالبعلموں کو تبدیلی کے آثار دکھائی دیتے تھے۔ اقتدار امتحان بھی ہوتا ہے اور آزمائش بھی۔ اقتدار حکمرانوں کا وقار بڑھاتا بھی ہے اور انہیں بے وقار بھی کرتا ہے۔ خوشحالی کی توقعات کو ماضی کی مشکلات کے ذکر سے ملتوی کیا جا سکتا ہے لیکن گڈ گورننس، اصولی اور اخلاقی طور پر ماضی سے ممتاز اور بالاتر سیاسی انداز کے دعوئوں کو ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ ان پر عملدرآمد کرنے اور مثالیں قائم کرنے کیلئے آغاز کے چند ماہ ہی کافی ہوتے ہیں۔ اخلاقی یا اعلیٰ درجے کی سیاست اور گورننس کا مقصد محض سادگی کے سطحی طریقے اختیار کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کی خشتِ اول منافقت سے پاک انداز سیاست اپنانا ہوتی ہے۔ غیر اصولی جوڑ توڑ، اقتدار میں رہنے کے لئے منافقانہ کمپرومائزز، انسدادِ کرپشن کے لاحاصل نعروں میں ناکامی چھپانے کی کوششیں وغیرہ ان تمام امیدوں کے چراغ بجھانے کے لئے کافی ہیں جو عمران خان نے دن رات محنت کرکے جلائے اور روشن کئے تھے۔ چنانچہ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہماری تاریخ کے صفحات پر عمران خان کیسے نقوش چھوڑ کر جائے گا؟ شاید مستقبل کا مورخ کچھ اس طرح کے الفاظ لکھے گا کہ عمران خان سیاست اور اندازِ حکمرانی کو اپنے بیان کردہ اصولوں کے سانچے میں ڈھالنے کے بجائے خود اسی سانچے میں ڈھل گیا، جو اسے اپنے پیشرو حکمرانوں سے وراثت میں ملا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسا خیال آتے ہی مجھے عمران خان پر ترس آنے لگتا ہے کیونکہ وہ معاملات کا ادراک بھی رکھتا ہے اور کچھ کرنے کی آرزو بھی۔ خیال کے اس مقام پر مجھے ایک بے داغ، بااصول، بہادر اور بے لوث سیاسی لیڈر یاد آئے جنہیں تاریخ مولانا حسرت موہانی کے اسم گرامی سے یاد کرتی ہے، ان کا ایک حسبِ حال شعر پڑھ لیجئے ؎
غمِ آرزو کا حسرتؔ سبب اور کیا بتائوں
میری ہمتوں کی پستی، میرے شوق کی بلندی