ضد اور خوش گمانی کا معاملہ الگ ہے ورنہ دیوار پہ لکھا نظر آ رہا ہے کہ کارِ حکومت احباب کے بس کی بات نہیں۔ ہاں، کوہ ہمالیہ سونا بن جائے اور سمندر کا پانی پٹرول میں تبدیل ہو جائے تو الگ بات ہے۔ سوال اب سیاست کا نہیں، بقاء کا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس حکومت کی ناکامی سماج کی نفسیات پر کیا اثر ڈالے گی؟ حکومت کی ناکامی اب مزید کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ لوگ اب تک زندہ ہیں تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ رازق اور مالک اللہ کی ذات ہے ورنہ ا س حکومت نے تو کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ مسائل اور بحران کوئی نئی بات نہیں، قوموں کو ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت کا مسئلہ بھی اس کو درپیش بحران نہیں، بصیرت اور صلاحیت ہو تو بحرانوں پر قابو پا لیا جاتا ہے۔ حکومت کا اصل بحران اس کا رویہ ہے۔ اس غیر سنجیدگی، اس کھلنڈرے پن، اس غیر ذمہ داری، اس لا ابالی اور اس بے حسی کے ساتھ تو گھر نہیں چلتے، ملک کیسے چل سکتے ہیں۔ بعض دوستوں کا اصرار ہے محض سات ماہ میں کسی حکومت کے بارے میں رائے قائم کرلینا مناسب نہیں ہے۔ہمیں کچھ انتظار کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کس بات کا انتظار؟ کیا کوئی ایک پالیسی ایسی بتائی جا سکتی ہے جس کے بارے یہ گمان کیا جا سکے کہ دو تین یا چار سالوں کی بعد اس کے نتیجے میں حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے؟ کوئی سمت ہے نہ کوئی پالیسی۔ اقوال زریں تھے جو اب دھیرے دھیرے مجموعہ لطائف بنتے جا رہے ہیں۔ حکمران کے پاس ویژن ہو تو قوم اس کے بروئے کار آنے تک انتظار کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسد عمر کے پاس کون سی ایسی چیز ہے جس پر ویژن کی تہمت دھری جا سکے۔
یہی کہ رمضان آتا ہے تو لوگ کیلے اور امرود لے لیتے ہیں تا کہ فروٹ چاٹ بنا سکیں اور یوں مہنگائی ہو جاتی ہے؟ اقتدار میں آئے تو مہنگائی کا طوفان بد تمیزی کھڑا کر دیا گیا۔ اس وقت ارشاد ہوا ہم چونکہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جا رہے اس لیے مہنگائی ہو رہی ہے۔ اور اب جب مہنگائی لوگوں کی جان کو آ چکی ہے تو بارگاہ اقتدار سے منادی ہوتی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جاناناگزیر ہو چکا ہے۔ دوست ممالک سے کچھ رقم ملی تو دو مرتبہ اسد عمر اور ایک بار خود عمران خان نے کہا اب پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہی۔اپنی کہی کسی بات کا تو پاس رکھا ہوتا؟ اب تو یہ گمان بھی شاید گناہ کے دائرے میں آئے گا کہ اس حکومت کے پاس کوئی معاشی پالیسی ہے۔ سرمائے کی اپنی نفسیات ہوتی۔ خوف اور سرمایہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس حکومت کے بانکوں نے پکڑ لیں گے اور چھوڑیں گے نہیں کی قوالی یوں گائی کہ سرمایہ دار ڈر کر بھاگ گیا، اب صرف ہمنوا باقی ہیں اور قوال۔ قوال حیران ہے اور ہمنوا پریشان۔ سامعین کی جان پر بنی ہے، کسی کا اب نچنے نوں دل نہیں کردا۔ پہلے احتساب کا غلغلہ بلند کر کے سرمائے کو یہاں سے بھگا دیا، اب ہوش آئی ہے تو اسی سرمائے کو واپس لانے کے لیے ایمنسٹی سکیم لائی جا رہی ہے۔ وہی ایمنسٹی جو ماضی میں دوسرے دیتے تھے تو گناہ ہوا کرتا تھا۔ سوال وہی ہے : معاشی پالیسی کہاں ہے؟ کس بات کا انتظار کیا جائے؟
ہم کیا سیموئل بکٹ کے ”ویٹنگ فا ر گوڈو“ کے کردار ہیں جو کسی درخت تلے بیٹھ کر ایک ایسی چیز کا انتظار کرتے مر جائیں جس کا ہمیں علم ہی نہ ہو؟معاملہ اب محض ایک حکومت کا نہیں، سماج کی بقاء کا ہے۔ عمران خان کی ناکامی کوئی معمولی سانحہ نہیں ہو گا۔ مجھے ڈر ہے یہ حادثہ سماج کی نفسیاتی چولیں ہلا دے گی۔ مجھے اس امکانی منظرنامے سے باقاعدہ خوف آ رہا ہے۔ عمران ایک امید کا نام تھا۔ سیاست سے بالعموم لاتعلق رہنے والے لوگوں کو عمران نے سیاسی طور پر متحرک کیا۔ انتشار فکر کے شکار سماج میں تبدیلی کے لیے غیر جمہوری اور غیر آئینی راستوں کی بجائے ایک جمہوری اور آئینی راستے میں لوگوں کی کشش نظر آئی اور لوگوں نے سمجھا جمہوریت کے ذریعے حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے۔یہ تجربہ اس برے طریقے سے ناکام ہو تا ہے تو سماج اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ یہ فکری اور نفسیاتی شکست و ریخت مختلف صورتوں میں ظہور کر سکتی ہے۔ پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سماج اس تجربے کو فکری ارتقاء سمجھ کر اس میں سے خیر برآمد کر لے۔ وہ یہ جان لے کہ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے جھوٹے سچے خواب دکھانا اور غیر حقیقی دعوے الگ بات ہے اور اقتدار میں آ کر ان کو تعبیر دینا اور عملی جامہ پہنانا ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔اس صورت میں سماج مزید کسی انتشار فکر سے تو بچ جائے گا لیکن تبدیلی کی کسک ختم ہو جائے گی۔
یہ رومان کی موت ہو گی۔ پھر صرف عملیت پسندی کا کریہہ آزار ہو گا۔ وہ نوجوان جو عمران خان کی صورت میں ایک امید دیکھ کر سیاست میں دل چسپی لینے لگے تھے پھر سے لاتعلق ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور سیاست محض پیشہ وروں کا دھندا بن کر رہ جائے گی۔ گویا سیاست میں نئی نسل کے متحرک ہونے سے جو امید پیدا ہوئی تھی وہ دم توڑ جائے گی۔دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نئی نسل شعوری طور پر یہ نتیجہ اخذکر لے کہ مروجہ سیاسی اور جمہوری عمل میں رہتے ہوئے اب تبدیلی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اس صورت میں ایک رد عمل جنم لے گا۔ رد عمل کی اس نفسیات میں یہ خطرہ بڑھ جائے گا کہ نوجوان تبدیلی کے لیے غیر جمہوری طریقہ کار کی جانب کشش محسوس کرنا شروع کر دیں۔ یہ وہی گرہ ہو گی جس کا شکار بہت سے مسلمان معاشرے ہو چکے۔ ان معاشروں میں تبدیلی کے لیے جب غیر جمہوری طریقوں کی جانب کشش بڑھی تو اس کا ایک نتیجہ عسکریت پسندی کی صورت میں نکلا۔اس رجحان کی مسلم معاشروں کو جو قیمت ادا کرنا پڑی ہے، ہمارے سامنے ہے۔ نوجوانوں میں جب مروجہ آئینی اور جمہوری عمل میں کوئی رومان باقی نہ رہے تو غیر جمہوری قوتیں طاقت پکڑتی ہیں۔ ایسے میں سماج کسی بڑے حادثے کا شکار نہ بھی ہو تو اس کا فکری ارتقاء رک جاتا ہے۔ وہ منجمد ہو جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو بذات خود کوئی معمولی حادثہ نہیں۔ عمران خان کو فیصلہ کرنا ہو گا۔ کابینہ میں شیخ رشید تو ہیں، کوئی رجلِ رشید بھی ہے؟