لاہور (انتخاب : شیر سلطان ملک ) عام طور پرکہاجاتاہے کہ پولیس والوں سے نہ دوستی اچھی اور نہ دشمنی اچھی ۔ یہ مقولہ بہت پرانا ہے ۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 72سال ہوچلے ‘ پولیس کوابھی تک عوام دوست نہیں بنا یا جاسکا ۔ تھانے کے اندر جانا تو کجا باہر سے گزرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہیں 0نامور کالم نگار اسلم لودھی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کسی جرم میں پکڑ کر اندر ہی نہ کردیا جائے ۔ جہاں پولیس ڈیپارٹمنٹ کی کالی بھیڑوں کا برے الفاظ میں ذکر ہوتاہے وہاں کچھ اچھے لوگ بھی یقینا موجود ہیں جو اپنے محکمے کا بہترین تعارف بنتے ہیں ۔ چند سال پہلے میں پتوکی کسی کام کے سلسلے میں گیا ۔ میں جس سے بھی ملا وہ ایک ہی کہانی سنارہا تھا ۔ کہ پتوکی میں ایک پولیس انسپکٹر ایسا بھی آیا تھا جس کا نام شفقت باری تھا ۔چارج سنبھالتے ہی اس نے مسجدوں میں یہ اعلان کروا دیا کہ آج کے بعد شہر کے تمام لوگ اپنے گھر کے دروازے کھول کر سوئیں ۔ اگر کسی گھر میں چوری ہوجائے تو وہ تھانے آکر مجھ سے لے جائے ۔ لوگ حیران تھے کہ یہ پولیس افسر کیسی عجیب باتیں کررہا ہے ۔یہ علاقہ رانا برادرای اور نکئی خاندان کے زیر اثر ہے ۔ ان بااثر لوگوں کی بھینسوں کو چارہ ڈالنے والے بھی وہاں سنبھلے نہیں جاتے ۔وہ خود کتنے خوفناک ہوںگے مقامی لوگ ہی جانتے ہیں۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ غلام باری انسپکٹر پولیس کے آنے کے بعد چوروںاور رسہ گیروں نے یہ علاقہ چھوڑ دیا تھا ۔ میں اس بہادر پولیس کو ملنا چاہتا تھالیکن بااثر لوگوں نے اس کی ٹرانسفر کروا دی تھی ۔ ذوالفقار چیمہ بے شک ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن آج بھی دلوں پر راج کرتے ہیں ‘ وہ جہاں جہاں بھی تعینات رہے وہاں سے رسہ گیروں ‘ ڈاکوں اور جرائم پیشہ افراد کا صفایا کرتے گئے ۔