پاک فضائیہ نے 1965ء اور 1971ء کے پاک بھارت جنگوں میں جو شاندار کردار ادا کیا، 1998ء میں ہم نے جو جوہری صلاحیت حاصل کی اور پھر 21ویں صدی کے ابتدائی برسوں سے لے کر آج تک پاکستان نے میزائل سازی میں جو ترقی کی، کیا اس میں کسی غیر مسلم پاکستانی نے بھی کوئی نمایاں کردار ادا کیا تو اس سوال کے جواب میں ہم کو سوچنا پڑے گا کہ وہ لوگ کون تھے کہ غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی انہوں نے پاکستان کے لئے ایسی لازوال خدمات انجام دیں جو پاکستان کی دفاعی تاریخ میں انمٹ یادگاریں چھوڑ گئی ہیں۔ میں، آج اس کالم میں ایک ایسی شخصیت سے قارئین کا تعارف کروا رہا ہوں جس کا نام اور ذکر پاکستان ائر فورس اور سپارکو میں تو اجنبی نہیں ہو گا لیکن ہماری لکھی پڑھی اشرافیہ اور پبلک میں بھی چند ہی لوگ ہوں گے جو اس کو جانتے پہچانتے ہوں گے۔۔۔ اس کا نام ائرکموڈور (پاکستان آرمی میں بریگیڈیر کے برابر) ولادی سلاؤ جوزف تورووچ تھا۔ آپ سوچیں گے کہ یہ تو بڑا ٹیڑھا سا نام ہے لیکن وہ چونکہ پولینڈ کا باشندہ تھا اس لئے وہاں لوگوں کے نام بالعموم اتنے ہی طویل اور نامانوس سے ہوتے ہیں۔ وہ 23 اپریل 1908ء کو پیدا ہوا اور 8 جنوری 1980ء کو ایک کار حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔ اس کو اس کے رفقائے کار پیار سے تورو کہہ کر پکارتے تھے۔ اس کو 1961ء میں پاکستانی شہریت دے دی گئی تھی۔ اس لئے اسے ایک پولش پاکستانی ہوا باز، سائنس دان اور ایرو ناٹیکل انجینئر مانا جاتا ہے۔۔۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں، وہ از راہِ اتفاق 23 اپریل کا دن ہے اور اس کا خاندان اس کا ایک سو گیارہواں یومِ ولادت منا رہا ہے۔
اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا جو ماشاء اللہ سارے حیات ہیں۔ دو بیٹیاں تو پاکستانی آفیسرز سے بیاہی ہوئی ہیں، ایک نے بنگلہ دیشی آفیسر سے شادی کر لی تھی اور بیٹا سپارکو سپارکو میں چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز رہا۔۔۔ آیئے اس نابغہ ء روزگار شخصیت کے سوانح اور کارناموں پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔ ائرکموڈور تورو 1908ء میں سائبیریا (روس) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین یہودی النسل تھے اور ان کو زارِ روس کے زمانے میں گرفتار کرکے سائبریا بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ ایک مزدور کی حیثیت سے ٹرانس سائبیرین ریلوے لائن پر کام کرتے رہے۔ اس حوالے سے تورو یہودی بھی تھے اور روسی بھی۔ پھر جب 1922ء میں روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تویہ خاندان بھاگ کر پولینڈ آ گیا۔ پولینڈ اور سائبیریا (روس) کی سرحدیں آپس میں ملتی تھیں۔ اس وقت تورو کی عمر 14برس تھی۔ انہوں نے میٹرک وہاں ایک ہائی سکول سے کیا اور پھر وارسا وارثا کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لے لیا(وارسا پولینڈ کا دارالحکومت ہے)۔ شروع ہی سے انہیں ہوا بازی کا شوق تھا۔ وارسا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے ایروناٹیکل انجینئرنگ کے شعبے میں داخلہ لے لیا اور آسٹرو فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ یہ 1936-37ء کا زمانہ تھا۔ وہیں ان کی ملاقات ایک خوبصورت لڑکی ظوفیا سے ہوئی۔ اس کی عمر 20برس تھی اور تورو کی 29،30 برس۔۔۔ ظوفیا گلائیڈگ پائلٹ بننے کی شوقین تھی۔ 1938ء میں تورو نے پولش فضائیہ میں بطور لڑاکا پائلٹ شمولیت اختیار کر لی۔ لیکن اگلے ہی سال یکم ستمبر 1939ء کو دوسری جنگِ عظیم شروع ہوگئی جس کی ابتداء ہٹلر کے پولینڈ پر حملے سے ہوئی۔
تورو جنوب مغربی سرحد پر واقع ایک ائر بیس پر تعینات تھے کہ ان کو حکم دیا گیا کہ اپنا طیارہ ناکارہ بنا کر ہمسایہ ملک رومانیہ بھاگ جائیں۔ 1940ء میں جنگ اپنے عروج پر تھی۔ جرمنی کی نازی افواج فرانس پر حملہ کرکے پیرس کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ اس افراتفری کے عالم میں کسی نہ کسی طرح ظوفیا بھی پولینڈ سے بھاگ کر رومانیہ آ گئی جہاں اس کی ملاقات اپنے بوائے فرینڈ تورو سے ہوئی اور دونوں نے شادی کر لی۔ ہٹلر نے یہودیوں پر عرصہ ء حیات تنگ کر رکھا تھا، اس لئے اس جوڑے نے رومانیہ سے بھاگ کر ہنگری اور فرانس کے راستے برطانیہ کی راہ لی۔ وہاں تورو نے برطانیہ کی رائل ائر فورس راف جوائن کر لی اور ہیلی فیکس لڑاکا طیارے اڑانے لگے۔ دوسری عالمی جنگ میں جب یکم ستمبر 1939ء کو ہٹلر نے پولینڈ پرحملہ کر دیا تھا تو پولینڈ ، برطانیہ کا اتحادی تھا اس لئے برطانیہ نے پولینڈ کی حمائت کرتے ہوئے 3ستمبر 1939ء کو جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا اور اس طرح دوسری عالمی جنگ کی بھرپور شروعات ہو گئی تھیں۔ پولش فضائیہ کے ہزاروں اہلکار برطانیہ آکر رائل ائر فورس جوائن کر چکے تھے۔۔۔ پھرمئی 1945ء میں جب یورپ میں یہ جنگ ختم ہو گئی تو بظاہر برطانیہ فاتح اتحادیوں میں تھا لیکن دیوالیہ ہو چکا تھا۔ تورو اور ان کے ساتھ 8000 پولش ہوا بازوں کو نوکری سے جواب دے دیا گیا۔ (اس وقت برطانوی حکومت تو اپنے سارے مقبوضات ترک کرنے کے پلان بنا رہی تھی جن میں برصغیر بھی شامل تھا۔) دریں اثناء تورو اور ظوفیا کے ہاں دو بیٹیوں کی ولادت ہو چکی تھی۔ پہلے تو دونوں نے واپس پولینڈ جانے کا سوچا لیکن یہ خوف تھا کہ اگر وہاں جا کر گرفتار کر لئے گئے تو کیا بنے گا۔ چنانچہ برطانیہ ہی میں رہے اور محنت مزدوری کرکے پیٹ پالتے رہے۔ اگست 1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو پاک فضائیہ کا زیادہ تر عملہ برطانوی پائلٹوں اور ہوا بازوں پر مشتمل تھا۔ ان سب نے واپس برطانیہ کی راہ لی۔ انہی ایام میں لندن میں پاکستانی سفارت خانے نے ایک اشتہار جاری کیا کہ پاکستان میں پائلٹوں اور ہوا بازوں کی ضرورت ہے، جن کو دلچسپی ہو، وہ درخواست دے سکتے ہیں۔ تورو اور ظوفیا نے پاکستان جانے کا ارادہ کر لیا۔ان کے ساتھ ان کے 30،40ہم وطن اور بھی تھے جو پاکستان جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس طرح ان سب کو اس وقت کی رائل پاکستان ائیر فورس میں بھرتی کر لیا گیا۔ ان کو ابتداء میں تین سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا۔ تورو کو ڈرگ روڈ، کراچی کی بیس پر پوسٹ کر دیا گیا اور ظوفیا کو پاک فضائیہ کے کیڈٹوں کو گلائیڈنگ کی تربیت پر مامور کیا گیا۔1952ء میں تورو کو ونگ کمانڈر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور چکلالہ کا سٹیشن کمانڈر تعینات کر دیا گیا۔ دریں اثناء اس خاندان میں دو مزید بچوں کا اضافہ بھی ہوا۔۔۔ ایک لڑکی اور ایک لڑکا۔۔۔ ظوفیا بچوں کی تعلیم کے لئے کراچی ہی میں ٹھہر گئی، پاک فضائیہ سے استعفے دے دیا اور کراچی یونیورسٹی اور ایک امریکن سکول میں ریاضی اور آسٹروفزکس کے مضامین پڑھانے لگیں۔ ان کے باقی ہم وطن کنٹریکٹ کے خاتمے پر واپس وطن چلے گئے اور کئی ایک نے اورینٹ ائرویز جوائن کر لی جو بعد میں پی آئی اے کہلائی! 1957ء میں تورو کو دوبارہ کراچی پوسٹ کر دیا گیا۔1959ء میں ان کو گروپ کیپٹن کے رینک میں پروموشن مل گئی اور1960ء میں وہ ائر کموڈور بنا کر ائر ہیڈ کوارٹرز میں اسسٹنٹ چیف آف ائر سٹاف تعینات کر دیئے گئے۔1961ء میں تورو اور ان کی فیملی کو پاکستانی شہریت دے دی گئی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے پاک فضائیہ کے لئے فاضل پرزہ جات کی سپلائی روک لی تھی لیکن ائر کموڈور تورو نے وہ پرزے لوکل مارکیٹ سے بنوائے اور استعمال کئے اور پاک فضائیہ کو آپریشنل رکھا۔ ان کی اس کاوش کی وجہ سے صدر ایوب خان نے ان کو تمغۂ پاکستان عطا کیا۔ اس کے بعد ان کو ستارۂ پاکستان اور ستارۂ قائداعظم کے اعزازات بھی دیئے گئے۔ اب آتے ہیں سپیس اور میزائل پروگرام کی طرف۔۔۔1957ء میں روس نے اپنا پہلا خلائی سیارہ سپوتنک خلا میں لانچ کیا۔ تورو اور ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ)مل کر صدر ایوب کے پاس گئے اور ان کو ملک کے لئے خلائی پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت کے سلسلے میں بریفنگ دی۔صدر نے اس کی منظوری دے دی۔ چنانچہ 7جون1962ء کو پاکستان نے اپنا پہلا راکٹ خلا میں چھوڑا جس کا نام رہبر وَن رکھا گیا۔اس کے بعد یہ دونوں(تورو اور ڈاکٹر عبدالسلام) امریکہ گئے اور امریکی حکام کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کو راکٹ ٹیکنالوجی سے مزید روشناسی کروائی جائے۔
حیران کن بات ہے کہ امریکہ اس بات پر راضی ہو گیا (یہ شاید اس کے سٹرٹیجک مفادات کی وجہ سے ممکن ہو سکا)۔چنانچہ بہت سے پاکستانی سائنس دانوں اور کاریگروں کو امریکہ بھیجا گیا اور فنِ راکٹ سازی میں ٹریننگ دلوائی گئی۔ 1967ء میں تورو نے پی اے ایف چھوڑ دی اور ان کو سپارکو (سپیس اینڈ اپرایٹما سفیر ریسرچ کمیشن) کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان نے راکٹ سے میزائل بنانے کی ٹیکنالوجی میں ایک بڑی چھلانگ لگائی۔۔۔ وہ 1970ء میں ریٹائر ہو گئے۔۔۔ ان کی عمر62 برس ہو چکی تھی۔جوانی میں ان کو پولینڈ میں ایک حادثے کے دوران کمر میں چوٹ لگ جانے کی وجہ سے گاہے بگاہے درد ہوتا تھا جس کی شدت میں اب اضافہ ہو گیا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ بڑھاپے میں پرانے درد جاگ اٹھتے ہیں۔آخری ایام میں وہیل چیئر کے محتاج ہو گئے تھے۔ آخر 8 جنوری 1980ء کو کراچی میں ان کی کار کو ایک حادثہ پیش آیا، جس میں وہ اور ان کا ڈرائیور دونوں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انہوں نے یہودی مذہب ترک کر کے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ چنانچہ ان کو کراچی کے گورا قبرستان میں مکمل فوجی اعزازات کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ میڈیم ظوفیا اپنے شوہر کے بعد تادیر زندہ رہیں اور32 برس بعد28فروری 2012ء کو کراچی میں انتقال کیا۔ان کی عمر96برس ہو چکی تھی۔ان کو بھی اپنے شوہر کے پہلو میں گورا قبرستان میں دفنا دیا گیا۔۔۔۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ان کے بچوں نے پاکستان میں شادیاں کر لیں۔
ایک بیٹی ایک بنگلہ دیشی آفیسر کے ساتھ بیاہی گئی اور بیٹا سپارکو کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر بنا۔ آخر میں ایک اور اہم واقعہ کا ذکر بھی ضروری ہو گا۔ جب تورو کو سپارکو میں ذمہ داریاں سونپی گئیں تو ان سے جاسوسی کروانے کی کوششیں کی گئیں۔ ایک پولش صحافی خاتون نے اس پر ایک مبسوط مضمون لکھا جو پاکستانی اخباروں میں بھی شائع ہوا۔ پولش سفارت کاروں کے ذریعے تورو کو زیرِ دام لانے کی کئی کوششیں کی گئیں بالخصوص جب ان کا نام پاکستان کے جوہری پروگرام کے ساتھ بھی منسلک ہو گیا۔ لیکن یہ سب کوششیں رائیگاں گئیں۔ایک بار ان سے پوچھا گیا تھا کہ اس سلسلے میں آپ کا تبصرہ کیا ہے، تو تورو نے جواب دیا تھا: ’’ہاں کئی بار مجھ سے رابطہ کیا گیا تھا۔ لیکن میں اور میری فیملی کا جینا مرنا تو اب پاکستان کے ساتھ تھا!‘‘میڈم ظوفیا کے انتقال سے چار برس پہلے تورو اور ان کی فیملی پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی گی جو یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے۔یہ پولش زبان میں تھی اور اس کا دورانیہ ایک گھنٹے کا تھا۔یہ ڈاکو منٹری پولش حکومت نے بنائی تھی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پاک فضائیہ اس کو انگریزی اور اُردو میں ڈب کر کے پاکستانی ناظرین وسامعین کی معلومات میں بھی اضافہ کرتی،لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔۔۔ اب شائد کسی ائر چیف کو خیال آئے اور وہ ایک ایسے محسنِ پاکستان کی یاد تازہ کرنے کی طرف توجہ دیں جس نے پاکستان کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔پاک فضائیہ کے اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ وہ کم از کم اس ڈاکو منٹری کی اردو ڈبنگ کا اہتمام کر کے اپنے ایک سابق آفیسر کی کاوشوں کی تشہیر کا اہتمام کریں ۔۔۔اور ضرور کریں۔