وہ درد بھرے لہجے میں خدا کے واسطے دے رہا تھا اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے سامنے فریادیں کر رہا تھا۔ یہ فریادی خود ایک وزیراعظم تھا۔ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے اراکین پارلیمنٹ، وزراء، بیوروکریٹس، اہم کاروباری شخصیات اور صحافیوں سے کہہ رہا تھا کہ خدا کے واسطے اِس پاکستان کی قدر کرو، یہاں اِستحکام پیدا کرو، آپس میں اختلاف ضرور کرو لیکن اپنے لہجوں میں نرمی پیدا کرو۔ اہلِ پاکستان کو ایک دوسرے کے ساتھ نرمی اختیار کرنے کا واسطہ دینے والا یہ شخص پاکستان کا وزیراعظم تو ہو نہیں سکتا کیونکہ پاکستان کے اکثر وزرائے اعظم اقتدار میں آکر بہت سخت لہجے میں بات کرتے ہیں۔ اُس وزیراعظم کا نام راجہ فاروق حیدر خان تھا، جو آج کل آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم ہیں اور 27 اپریل کی شب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں اولڈ راوینز یونین کے سالانہ عشایئے میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کر رہے تھے۔ وہ اپنی مادرِ علمی میں 45 سال کے بعد واپس آئے تھے۔ اسٹیج پر اُن کے ساتھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حسن امیر شاہ کے علاوہ تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر شہریار آفریدی بھی موجود تھے۔ راجہ فاروق حیدر خان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ اُنہوں نے پاکستان کی سیاست پر کوئی بات نہیں کی لیکن دو تین مرتبہ شہریار آفریدی کو مخاطب کر کے کہا کہ ہمیں اپنے لہجے نرم کرنا ہوں گے۔ لہجے نرم کرنے کا مطلب قطعاً یہ نہیں تھا کہ وہ کسی سے کوئی رعایت مانگ رہے تھے، اُس کا مطلب صرف اِتنا تھا کہ اپنے رویوں میں برداشت پیدا کی جائے۔ اولڈ راوینز یونین نے انتہائی کشیدہ سیاسی ماحول میں ایک دوسرے کے مخالف سیاستدانوں کو اپنے سالانہ عشایئے میں ایک اسٹیج پر جس مقصد کے تحت بٹھایا تھا، راجہ فاروق حیدر خان اپنی منت سماجت کے ذریعہ اُس مقصد کو آگے بڑھا رہے تھے۔ اُن کی منت سماجت اپنی ذات کے لئے نہ تھی۔ یہ منت سماجت پاکستان اور جموں و کشمیر کے لئے تھی۔ اپنے زمانہ طالب علمی کی یادوں کو تازہ کرنے کے بعد راجہ صاحب ہمیں خدا کے واسطے دینے لگے۔ ایک شعلہ بیان سیاستدان اپنی آنکھوں کے آنسو روکتے ہوئے لاہور والوں کو بتانے لگا کہ آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب علاقوں میں کیا ہوتا رہا ہے اور آج کیا ہو رہا ہے؟ ایل او سی کے پار پچھلے ستر سال سے کیا ہو رہا ہے؟ اپنے وقت کے بہت بڑے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کو اُس کے منہ پر ’کاغذی فیلڈ مارشل‘ قرار دینے والے راجہ حیدر خان کا برخوردار راجہ فاروق حیدر خان بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنے دل کے زخم ہتھیلی پر رکھے اپنوں سے انصاف طلب کر رہا تھا۔ اُنہوں نے کشمیر کے ایک گائوں کا ذکر کیا، جہاں چالیس عورتوں کی عصمت دری ہوئی۔ پھر یاد دلایا کہ 13 جولائی 1931 کو سری نگر میں بیس مسلمانوں کو شہید کیا گیا تو 14 ؍اگست 1931 کو لاہور میں علامہ اقبال نے باغ بیرون موچی دروازہ میں ایک جلسہ کیا اور کشمیریوں کے حق میں تحریک کا آغاز کیا۔ راجہ فاروق حیدر نے ایک دفعہ پھر اپنے آنسو روکے اور شکایت بھرے لہجے میں کہا کہ آج کشمیر میں روزانہ گولی چلتی ہے، روزانہ لاشیں گرتی ہیں، روزانہ عصمتیں لٹتی ہیں لیکن علامہ اقبال کے پاکستان میں دفترِ خارجہ کا ترجمان ایک مذمتی بیان جاری کر کے خاموش ہو جاتا ہے۔ راجہ فاروق حیدر نے قدرے تلخ لہجے میں کہا کہ ہمیں صرف دفترِ خارجہ کے ترجمان کی مذمت نہیں چاہئے بلکہ اپنے لئے وہ اپنائیت چاہئے جس کا مظاہرہ علامہ اقبال اور قائداعظم نے کیا تھا کیونکہ پاکستان ہماری منزل ہے، ہم تو مرنے کے بعد بھی پاکستان کے پرچم کو اپنا کفن بناتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ ہونے والے ظلم کو آپ لوگ نظر انداز کر رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے جہان میں آپ کی پکڑ ہو۔ راجہ فاروق حیدر خان کی تقریر اب ماتم بن چکی تھی۔ آہ و بکا اور ’سیاپا‘ بن گئی تھی۔ میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے مجھے بتایا کہ ہم نے تو بھارت کے خلاف قرارداد پاس کی تھی۔ میں نے کہا جب ایل او سی پر بھارتی گولہ باری سے عورتیں، بچے اور بوڑھے مارے گئے تو کیا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی نے اظہارِ یکجہتی کے لئے ایک وفد مظفرآباد بھیجنا گوارا کیا؟ ایم پی اے صاحب نے زور زور سے سر ہلا کر کہا: بالکل درست کہا آپ نے، بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ راجہ فاروق حیدر کا ماتم جاری تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ سری نگر کے مزارِ شہداء میں مقبول بٹ اور افضل گرو کی قبریں خالی ہیں۔ دونوں کو پھانسی دینے کے بعد دہلی کی تہاڑ جیل میں دفن کر دیا گیا، اب یاسین ملک کو بھی تہاڑ جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن آپ کو ہماری زیادہ فکر نہیں ہے، آپ تو آپس میں لڑے جا رہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ کاش راجہ فاروق حیدر خان کا یہ ماتم اُن اہلِ اختیار تک بھی پہنچ جائے جو یہ طے کر کے بیٹھے ہیں کہ بھارت کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو بہت بڑی اکثریت ملنے والی ہے اور اُس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی مہربانی سے نریندر مودی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دے گا۔ حالات وواقعات بتا رہے ہیں کہ مودی کو لینڈ سلائیڈ وکٹری نہیں ملے گی۔ کانگریس اور اُس کے اتحادی توقعات سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتے ہیں لیکن بھارت میں جو بھی اقتدار میں آئے گا وہ کشمیر کو آزادی نہیں دے گا۔
راجہ فاروق حیدر نے اپنی لمبی تقریر میں کہیں پر یہ نہیں کہا کہ پاکستان کی طرف سے بھارت پر حملہ کر دیا جائے۔ وہ تو صرف یہ فریاد کر رہے تھے کہ خدا کے واسطے آپس میں اتحاد پیدا کرو کیونکہ کشمیریوں کی آخری منزل اور آخری امید پاکستان ہے۔ اولڈ راوینز یونین کی اِس تقریب میں یونیورسٹی کے ڈین، فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر خالد منظور بٹ نے یہ افسوسناک خبر بھی سنائی کہ یونیورسٹی کے ایک سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی وفات پا گئے ہیں۔ یہ وہ عظیم شخصیت تھی جس نے اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی یونیورسٹی کے اینڈوومنٹ فنڈ میں جمع کرا دی تاکہ غریب بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہو سکیں۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کی وفات کی خبر اور راجہ فاروق حیدر خان کے ماتم نے طبیعت کو بہت بوجھل کر دیا اور میں کھانا کھائے بغیر ہی وہاں سے اٹھ گیا۔ واپسی پر میں دل ہی دل میں راجہ فاروق حیدر خان کا شکریہ ادا کر رہا تھا کہ آج اُنہوں نے پاکستان کے دل لاہور میں اُس ماتم کی آواز پہنچائی، جو روزانہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی کسی نہ کسی گلی اور کوچے میں گونجتی ہے۔