لاہور (ویب ڈیسک) احتسابی ادارے کے نام اور کام دونوں میں تبدیلی کے لیے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاقِ رائے ہو چکا ہے۔ کھال اور گردن بچانے کے لیے یہ گٹھ جوڑغیر متوقع اور نیا نہیں…جلد یا بدیر ایسا ہونا ہی تھا… خود کو مردآہن کہلانے کے شوقین نواز شریف جان کی خلاصی کے لیے نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر حربہ آزمانے پر تلے ہوئے ہیں۔ طبی بنیادوں پر شروع ہونے والی تگ ودو اب ترلوں تک آن پہنچی ہے… عدالت میں تضاد بیانیوں کے بعد چھ ہفتوں کی مشروط ضمانت ختم ہونے کو ہے۔ نواز شریف کی ٹوٹ پھوٹ اور ریلیف کے لیے بدلتے ہوئے پینترے دیکھ کر ایک واقعہ شیئر کرتا چلوں جو سید عباس اطہر(مرحوم) المعروف شاہ جی کے ساتھ پیش آیا۔ نواز شریف شاہ جی کے کالموں کی کاٹ اور سرخیوں کی چبھن سے تنگ ہی رہتے تھے۔ شاہ جی کو قابو کرنے کے لیے نواز شریف نے انہیں دانہ ڈالا کہ ”شاہ جی میری خواہش ہے کہ آپ ہمارے (ن لیگ کے) میڈیا سیل کی نگرانی اور سرپرستی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اس کے بدلے وہ انہیں بھاری معاوضہ اور کافی مراعات دے سکتے ہیں‘‘۔ جواباً شاہ جی بولے ”میاں صاحب اگر پورے پاکستان کا لوہا اکٹھا کر لیا جائے اور آپ کے شایانِ شان اور تسلی کے لیے پاکستان سٹیل مل بھی ملک بھر سے اکٹھے کیے ہوئے لوہے میں شامل کر لیں تو آپ پھر بھی مردِ آہن نہیں بن سکتے۔ براہِ کرم میں آپ کی اس پیش کش کو قبول کرنے سے قاصر ہوں۔ آپ کو اس کام کے لیے اور بہت مل جائیں گے لیکن میں اپنا بڑھاپا خراب نہیں کر سکتا‘‘۔ شاہ جی بڑے سے بڑی بات‘بڑے سے بڑے آدمی کے سامنے انتہائی آسانی اور سادگی سے کہہ دینے میں اپنی مثال آپ تھے۔ حاکمِ وقت ہو یا کوئی بھی بااثر شخصیت… بے باکی سے لے کر بد لحاظی تک پہنچنے میں انہیں چند لمحے ہی لگا کرتے تھے۔ یہی کچھ انہوں نے نواز شریف صاحب کے ساتھ کیا۔ شاہ جی سے قربت اور نیاز مندی کی وجہ سے ایسے بے شمار واقعات کا واقفِ حال ہوں۔ یہ واقعات یقینا ہماری سیاسی اور صحافتی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر ان واقعات کو شیئر کرنا شروع کروں تو پورا کالم ختم ہو جائے گا لیکن یہ واقعات ختم ہونے کا نام نہیں لیں گے۔ اس لیے مذکورہ واقعہ بطور استعارہ شیئر کر رہا ہوں کہ سلام ہے شاہ جی کی دور اندیشی‘ ویژن اور مردم شناسی کو۔ انہوں نے نواز شریف کو اس وقت ہی پہچان لیا تھا اور جان لیا تھا کہ یہ کتنے ”جوگے‘‘ ہیں۔سیاسی مخالفین کو احتساب اور کرپشن کے نام پر زیر ِعتاب رکھنے کی روایت بھی نواز شریف نے ہی شروع کی تھی۔ آج وہ پچھتاتے پھر رہے ہیں کہ کاش وہ آرٹیکل 62‘63 کو ختم کرنے کر لیے پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد نہ کرتے۔ گویا ۔۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونااب احتساب سے خائف حکومت اور اپوزیشن احتسابی ادارے کا نام بدل کر نیشنل اکاؤنٹیبلٹی کمیشن (NAC) رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے اختیارات اور طریقہ کار کے حوالے سے بھی اتفاقِ رائے کر چکے ہیں۔ یعنی احتساب بیورو کے بجائے اب اس ادارے کو احتساب کمیشن کے نام سے لکھا اور پکارا جائے گا۔ ”کمیشن‘‘ کا لفظ ویسے بھی ہمارے سیاست دانوں کے لیے ”محبوب‘‘ ترین لفظ ہے۔ سیاستدان برسر اقتدار ہو یا اپوزیشن میں ”کمیشن‘‘ کا لفظ اس کو ہمیشہ ہی للچائے رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں چوروں کا چوروں کو تحفظ دینے کا رواج کوئی نیا نہیں… بدقسمتی سے وطن عزیز میں لوگ کرپشن کے دفاع میں مصلحت اور مفاہمت کی اس انتہا پہ چلے جاتے ہیں کہ ان کی بلا سے ملک کے پلے کچھ رہے نہ رہے‘ ان کی گردن اور کھال محفوظ رہنی چاہیے۔ جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہے پھر وہاں کچھ نہیں چلتا۔ کھال اور گردن بچانے کے نام پر نیا گٹھ جوڑ کیا جارہا ہے… ملکی وسائل کو باپ دادا کی جاگیر سمجھنے والے ہمیشہ ایک ہی نکتے پر متفق اور مطمئن رہے کہ تم بھی لوٹوہمیں بھی لوٹنے دو… خود بھی کھاؤ ہمیں بھی کھانے دو اور جب وقت حساب آئے تو… خود بھی بھاگو ہمیں بھی بھاگنے دو۔ حکومت اور اپوزیشن کے اس گٹھ جوڑ نے اگر احتساب کو مصلحتوں اور مجبوریوں کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی تو یہ لفظ محض طعنہ بن کر رہ جائے گا۔ ملک و قوم کا پیسہ لوٹنے والے اگر اس بار بھی بچ نکلے تو بخدا پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جب معاشرے میں لوٹ مار اور مار دھاڑ کو استحقاق تصور کیا جانے لگے اور قانون و احتساب بے بس اور بے اختیار نظر آنے لگیںتو سمجھ لینا چاہیے کہ قانونِ فطرت حرکت میں آنے والا ہے۔ جلد یا بدیر وہ حرکت میں آکر ہی رہتا ہے اور جب وہ حرکت میں آتا ہے تو وکالتیں بھی تحفظ نہیں دے پاتیں کیونکہ آسمانی فیصلوں کے آگے زمینی وکالتیں نہیں چلتیں۔ دوسری جانب حکمرانوں کو برسرِ اقتدار آئے بمشکل پون سال ہوا ہے لیکن کئی مقامات پر بیک گیئر لگتا دکھائی دے رہا ہے۔ ابھی معاملات پوری طرح سنبھال بھی نہ پائے تھے کہ جانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ نتائج اور اہداف کے حصول میں ناکامی کے پیش نظر کئی کھلاڑیوں کی پوزیشنیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ انتخابات جیت کر آنے والوں کو غیر منتخب افراد کے لیے کابینہ کی اگلی نشستیں خالی کرنا پڑ گئیں۔ یعنی منتخب حکومت کی کابینہ میں غیر منتخب ارکان بڑھتی ہوئی تعداد اور کردار میں وسعت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ: منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔۔ قومی اسمبلی میں روزِ اول سے ہی عوامی نمائندوں کا زبان و بیان وہ منظر نامہ پیش کر رہا ہے‘ جسے دیکھ کر ہر پاکستان پچھتاوے‘ دکھ اور مایوسی کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔ یہ تماشا ایسا ہی چلتا نظر آرہا ہے… سیاست سے لے کر حکومت تک… معیشت سے لے کر عوام کی قسمت تک سب پر یکساں جمود طاری ہے۔ بعض معاملات اور مقامات پر بات جمود سے بڑھ کر نحوست تک جا پہنچی ہے۔ برسراقتدار آنے کے بعد وزیراعظم کی پہلی تقریر سننے کے بعد عوام جھوم اٹھے تھے کہ ”اب راج کرے گی خلقِ خدا‘‘ لیکن ایسا ہونہ سکا۔ معیشت کی بحالی اور استحکام میں ناکامی کا ذمہ دار سابقہ حکمرانوں کو ٹھہرانا کسی حد تک قابلِ قبول ہے لیکن گورننس اور انتظامی فیصلوں میں سابقہ حکمران کہاں سے آ گھسے ہیں؟ اپنی نالائقیوں اور ناکامیوں کا عذر تلاش کرنے سے بہتر ہے ان وجوہات پر فوکس کیا جائے جن کی وجہ سے بیڈ گورننس کا طوق گلے میں آن پڑا ہے۔ پارلیمنٹ ہو یا عوامی اجتماعات بلاول بھٹو جارحانہ پالیسی اختیار کر چکے ہیں اور سیاسی ماحول گرمانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے والد کے دفاع کی خاطر جلاؤ‘ گھیراؤ سے لے کر جیل بھرو تحریک تک… کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ آصف علی زرداری کی گرفتاری بچانے کے لیے واویلا دیکھ کر بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ”چور مچائے شور‘‘۔ خبر ہے کہ نئے آئی جی پنجاب نے پنجاب پولیس کی وردی کا فیصلہ مؤخر کر دیا ہے۔ وہ وردی کے رنگ سے زیادہ پولیس فورس کے رنگ‘ ڈھنگ میں تبدیلی کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔ چلتے چلتے اس مہنگائی کے سونامی کا ذکر بھی کرتا چلوں جو رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی عوام کی بدحالی میں اضافے کے لیے اپنی آمد کا پتہ دے رہا ہے۔ خدا خیر کرے… بجٹ اور آئی ایم ایف پیکیج آنا ابھی باقی ہے۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ اب راج کرے گی خلقِ خدا۔آخر میں وزیراعظم کو ایک کریڈٹ دیتا چلوں کہ انہوں نے بروقت نوٹس اور اقدام کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن کو مزید تباہی سے بچا لیا ہے۔ اسی قسم کی توجہ ایک ریکارڈنگ اینڈ براڈ کاسٹنگ کمپنی کے لیے بھی درکار ہے۔ یہ ادارے سرکاری اثاثے ہیں۔ انہیں کسی کے لیے مال بنانے کا ذریعہ نہ بننے دیں ‘خواہ کوئی کتنا قریبی اور منظورِ نظر ہی کیوں نہ ہو۔ اپنوں کو نوازنے کی پالیسی کے نتیجے میں اس ادارے کے وسائل کو جس طرح بھنبھوڑا گیا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ ادارہ وینٹی لیٹر پر تھا۔ اسے جنرل وارڈ میں منتقل کرانے کا کریڈٹ بلاشبہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے افسران کو ہی جاتا ہے۔ خدارا اس ادارے کو بچانے کے لیے آج بھی آپ کی توجہ اور اعتماد درکار ہے۔