اسے پارلیمنٹ کی بدقمستی کہیے یا کچھ اور قومی اسمبلی میں شاید کوئی دن اور سکون سے گزرا ہو حکومتی طرز عمل نے ’’ہنگامہ آرائی‘ شور شرابا اور نعرے بازی پارلیمنٹ کا مقدر بن گیا ہے سپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں ایڈوائز کمیٹی کے اجلاس میں ایوان کی کارروائی پرامن چلانے اور اجلاس کا ایجنڈا چلانے پر اتفاق ہوتا ہے لیکن بعض حکومتی اراکان کی بلاوجہ مداخلت ایوان کا ماحول خراب کردیتی ہے۔ حکومتی ارکان کی اپوزیشن کے ساتھ چیڑ چھاڑ اسے مہنگی پڑتی ہے بعض حکومتی ارکان ’’کپتان‘‘ کو خوش کرنے کیلئے اپوزیشن پر چڑھائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پسپائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن تو گومگو کی کیفیت کا شکار ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی جارحانہ کھیل کھیلنے پر تلی ہوئی ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی کے اجلاس میں اس بات کا رونا رویا گیا کہ انہیں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے کوئی گائیڈ لائن نہیں اگر گائیڈ لائن کلیئر ہو جائے تو وہ بھی اس وکٹ پر کھیلنے کیلئے تیار ہیں جس وکٹ پر پاکستان پیپلز پارٹی کھیل رہی ہے۔ بھلا ہو پاکستان تحریک انصاف کو پاکستان مسلم لیگ ن کو خود ہی چڑائی کا موقع فراہم کردیتی ہے پیر کی شام قومی اسمبلی میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی حکومت پر چھائے رہے انہوں نے پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے جہاں غلام سرور خان سے دو دو ہاتھ کئے وہاں انہوں نے پٹرولیم کی مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں کمی کی پیشکش کردی لیکن حکومت نے ان کے پیشکش قبول نہیں کی۔ شاہد خاقان عباسی نے حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بغیر گیس سیکٹر میں خسارہ ختم کرنے اور 6 ماہ میں پی آئی اے کا خسارہ آدھا کرسکتے ہیں۔ لیکن شاید سپیکر اسد قیصر کو ان کی پیشکش پسند نہ آئی انہوں نے شاہد خاقان عباسی کا مائیک بند کر کے وزیر دفاع پرویز خٹک کو مائیک دے دیا جس پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے شدید احتجاج کیا اور سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کیا، ان کے شور شرابہ سے ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا اور ایوان میں کان پڑی آواز نہ سنائی دی۔ چودھری تنویر کی سینٹ اجلاس میں طویل غیر حاضری کے بعد آمد، وزراء کی غیر حاضری پر سپیکر نے اظہار ناراضی کیا۔