خالد مقبول صدیقی اینڈ کمپنی کو سمجھنا ہوگا کہ کراچی اب صرف ان کا نہیں رہا۔ وہ ’’باقیات‘‘ ہیں جو ایم کیو ایم کے ساتھ ’’پاکستان‘‘ کا لاحقہ لگا کر قومی اور سندھ اسمبلی میں کسی نہ کسی صورت پہنچ گئے اور وفاق میں تحریک انصاف کی کمزور تعداد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو وزارتیں بھی حاصل کرلیں۔
جولائی 2018ء کے انتخابی نتائج نے کراچی کی ’’ترجمانی اور نمائندگی‘‘ فیصل واوڈا اور علی زیدی جیسے متحرک نسبتاََ ’’نئے‘‘ چہروں کے سپرد کردی ہے۔ تعلق ان کا تحریک انصاف سے ہے۔ اس جماعت کی بیس یا کور کا انتخابی حلقہ اپنی ’’لسانی شناخت‘‘ کو سیاسی قوت کا باعث نہیں ٹھہراتی۔ کرپشن کا خاتمہ اس کا بنیادی پیغام رہا ہے۔ یہ پیغام ’’گڈ گورننس‘‘ کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ بات طے کرنے میں ابھی وقت درکار ہے کہ تحریک انصاف مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس ملک میں ٹھوس انداز میں ’’گڈ گورننس‘‘ متعارف کروا پائی یا نہیں۔ بنیادی مسئلہ اس وقت پاکستان میں معیشت کی بحالی ہے۔ بازار میں رونق۔ یہ رونق ہی نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے کے نئے امکانات دکھا سکتی ہے۔ سرکار کے پاس، خواہ وہ مرکز میں ہو یا صوبے میں، نئے روزگار پیدا کرنے کی سکت اب موجود نہیں رہی۔ پاکستان سٹیل مل یا پی آئی اے جیسے اداروں سے ’’پرائیویٹ پبلک اشتراک‘‘ سے جان چھڑانے کی کوشش ہورہی ہے۔ ایف بی آر گزشتہ مالی سال میں طے ہوئے اہداف کے مطابق ٹیکس جمع نہیں کر پایا۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک سے گراں قدر معاشی سہارے مل جانے کے باوجود آئی ایم ایف سے ایک نیا بیل آئوٹ پیکیج درکار ہے۔ خسارے کے بجٹ نے صوبوں کو وہ رقوم مہیا نہیں کیں جو این ایف سی ایوارڈ کے مطابق ان کا ’’حق‘‘ تھا۔ ان رقوم کی عدم دستیابی نے ترقیاتی کام روک رکھے ہیں۔ ایسے حالات میں ’’آدھا تمہارا آدھا ہمارا‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے فقط لسانی بنیادوں پر سندھ میں ایک نیا صوبہ بن بھی گیا تو اس کے انتظامی ڈھانچے کو کھڑا کرنے کی رقم بھی میسر نہیں ہو گی۔ اسے خیر و عافیت سے چلانا تو بہت دور کی بات ہے۔ ’’آدھا تمہارا آدھا ہمارا‘‘ کا نعرہ مگر صوبہ سندھ کو 1980ء کی دہائی میں دھکیل دے گا جس کا انجام بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کی صورت دیکھنے کو ملا تھا۔ ’’مہاجر‘‘ شناخت پر اصرار نے فقط ’’دیہی‘‘ تعصبات ہی کو توانا نہیں بنایا۔ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں آباد ہوئے دوسرے لسانی گروہ بھی اپنی ’’شناخت‘‘ پر اصرار کرتے ہوئے ’’نو گو ایریاز‘‘ بنانا شروع ہو گئے تھے۔ ہماری سیاسی جماعتیں اس خوفناک تقسیم کا مؤثر جواب فراہم نہ کر پائیں۔ بالآخر ریاست کے دائمی اداروں کو متحرک ہو کر غیرمعمولی اختیارات کے ساتھ امن و امان بحال کرنا پڑا۔ وقت اب ایک نئی سیاست کا متقاضی ہے۔ ’’لسانی اور نسلی شناخت‘‘ سے بالاتر ہو کر اس سیاست کی بدولت سندھ کے تمام باسیوں کو ’’شہری‘‘ بنانا ہوگا۔ ریاست سے ان ’’شہریوں‘‘ کے لئے امن و امان اور روزگار کا حق طلب کرنا ہوگا۔ ٹیکس وغیرہ دیتے ہوئے اپنے فرائض بھی ادا کرنا ہوں گے۔ ایم کیو ایم کا ’’نئی سیاست‘‘ کے ذریعے متبادل فراہم کرنے کے لئے چند سال قبل مصطفیٰ کمال نے ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ بنائی تھی۔ میں اس کالم میں اسے ’’کمال کی ہٹی‘‘ لکھتا رہا۔ میرے کئی دوستوں کو اگرچہ کامل یقین تھا کہ یہ جماعت جولائی 2018ء کے انتخابات میں اپنا جلوہ دکھائے گی۔ وہ ناکام رہی۔ تحریک انصاف نے عمران کی متحرک شخصیت کی بدولت کراچی میں اپنی اسپیس بنالی۔ ’’گڈ گورننس‘‘ کے پیغام کے ساتھ وہ 2018ء کے انتخابات کے بعد اپنا اثرنام نہاد ’’دیہی سندھ‘‘ تک بھی پھیلا سکتی تھی۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا۔ گھوٹکی کے مہروں پر تکیہ رہا۔ شاہ محمود قریشی میرپور اور تھر پارکر میں اپنے مریدوں کی ’’غوثیہ جماعت‘‘ کو تحریک انصاف بناتے رہے۔ جی ڈی اے میں شامل ہوئے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ فہمیدہ مرزا سے توقع باندھی گئی۔خالد مقبول صدیقی کے رچائے جلسے کے عین ایک روز بعد کراچی میں تحریک انصاف نے ’’یومِ تاسیس‘‘ کے حوالے سے جو شو لگانا چاہا وہ مقامی قیادت اور کارکنوں کے مابین سر پھٹول کی نذر ہوگیا۔ پریشان کن پیغام اس ناکام جلسے نے بلکہ یہ دیا کہ کراچی میں تحریک انصاف بھی اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر پائی ہے۔ سیاسی حوالوں سے کوئی ایک جماعت بھی اب اس شہر کی کامل نمائندگی کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی عام سیاسی جماعتوں سے لاتعلقی کا ٹھوس صورتوں میں اظہار دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے لئے لاتعلقی کا یہ اظہار فکر کا باعث ہونا چاہیے۔ سنجیدہ معاملات پر غور کرنے کی ہماری سیاسی قیادت اور میڈیا کو مگر عادت نہیں رہی۔ ماضی کے گھسے پٹے نعروں اور سوالات کی بنیاد پر اپنی دوکان چلانے کی علت میں مبتلا ہیں۔ ایم کیو ایم 1988ء سے قائم ہوئی تقریباََ تمام وفاقی حکومتوں کی ’’حلیف‘‘ رہی ہے۔ ان حکومتوں سے اس نے کراچی پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے اپنے جثے سے کہیں بڑھ کر حصہ طلب کیا۔ اس کے باوجود مطمئن نہ ہوئی۔ آئین کی آٹھویں ترمیم کے ہوتے ہوئے صدر کو حکومتیں توڑنے کے جو اختیارات حاصل تھے ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایم کیو ایم نے 1990ء اور 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان کو پہلے پیپلز پارٹی اور بعدازاں نواز حکومت کو وقت سے پہلے گھر بھیجنے کے جواز فراہم کئے۔ 1996ء میں ایسی ہی ’’کمک‘‘ سردار فاروق خان لغاری کو مہیا ہوئی۔ 2002ء سے 2008ء تک لیکن ایم کیو ایم صدر مشرف کی چھتری تلے قائم وفاقی اور سندھ حکومتوں کی ’’لاڈلی‘‘ رہی۔ ’’ایک زرداری … سب پہ بھاری‘‘ بھی پورے پانچ برس ’’قومی مفاہمت‘‘ کے نام پر ان کے ناز نخرے اٹھانے کو مجبور رہے۔ عمران حکومت کی جانب سے پہلے بجٹ کی تیاری کے دوران ’’آدھا تمہارا آدھا ہمارا‘‘ کا نعرہ اگر ٹھنڈے مزاج سے سوچیں تو مراد علی شاہ کی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث نہیں ہوگا۔ پیپلز پارٹی کو ’’جعلی اکائونٹس‘‘ وغیرہ کی بنیاد پر اُٹھے قضیوں نے پہلے ہی اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کی حالیہ انگڑائی درحقیقت وفاقی حکومت کو ’’کچھ کرنے‘‘ پر اُکسا رہی ہے۔عمران حکومت اگر اس ضمن میں تامل کا رویہ اختیار کرے تو ’’ورنہ‘‘ والا پیغام ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ وزیراعظم اس ’’ورنہ‘‘ کے بارے میں کیا محسوس کررہے ہوں گے۔ ’’آدھا تمہارا آدھا ہمارا‘‘ والی بات تسلیم کرنے کو مگر تیار نہیں ہوں گے۔ یاد رہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ابھی تک ’’جنوبی پنجاب‘‘ کو صوبہ نہیں بنا پائے ہیں۔