counter easy hit

الجزائر اور سوڈان کے بعد

الجزائر میں پانچ ارب پتی شہریوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ان میں الجزائر کے سابق صدر عبدالعزیز بو تفلیقہ بھی شامل ہیں جن کی صدارت کے عہدے سے برطرفی عوامی احتجاج کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی۔ سابق صدر کے علاوہ دیگر پانچ افراد میں اسد رباب بھی شامل ہیں جنھیں تیل کی دولت سے مالا مال شمالی افریقی ملک کا سب سے بڑا مالدار بزنس مین مانا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ خوراک کی درآمد اور چینی کے کاروبار میں بھی ان کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ اقدامات اس وقت کیے گئے جب الجزائر کے آرمی چیف نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انھیں توقع ہے کہ الجزائری حکمران فیملی کے اعلیٰ ترین افراد کے خلاف کرپشن کے الزام میں کارروائی کی جائے گی۔ الجزائر میں حکمران ٹولے کے خلاف دو ماہ سے عوامی احتجاج جاری ہے جس میں عوام حکمران ٹولے کے خلاف کرپشن کے الزامات لگائے جا رہے تھے۔

واضح رہے کہ حکمران بو تفلیقہ تقریباً 20 سال سے بلا شرکت غیرے ملک کا حکمران رہا ہے۔ اب عوامی احتجاج کے حوالے سے اسے اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا ہے۔ سوڈان میں بھی سابق حکمرانوں کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اقتدار اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ رہتا ہے۔ الجزائر شمالی افریقہ کا اہم ’’مسلم ملک‘‘ ہے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں کی اشرافیہ شاہانہ انداز میں زندگی گزارتی ہے۔ جیسے پاکستان کی اشرافیہ شاہانہ انداز میں زندگی گزار رہی ہے۔

اس حوالے سے سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اشرافیہ کرپشن کے حوالے سے جو دولت جمع کرتی ہے اس اربوں کی دولت کے حقیقی مالک عوام ہوتے ہیں، اگر یہ اربوں ڈالر اشرافیہ سے چھین لیے جائیں جس کا عوام کو حق ہے تو غریب اور مفلوک الحال عوام کا معیار زندگی بلند ہوسکتاہے۔ لیکن کرپشن کے سرپرست سرمایہ دارانہ نظام نے کرپشن کے تحفظ کے لیے اپنے پیر اتنے پھیلا لیے ہیں کہ زندگی کا کوئی شعبہ ان کے دست مبارک سے خالی نہیں۔ ویسے تو کرپشن کے خلاف قوانین میں اتنی لچک رکھی گئی ہے کہ کرپٹ اشرافیہ اپنے خلاف کرپشن کیسز کا مقابلہ بڑے آرام اور اطمینان سے زندگی بھر کرسکتی ہے۔

کرپشن کی وبا ویسے تو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے لیکن مسلم ممالک اس حوالے سے کرپشن کا گڑھ بنے ہوئے ہیں۔ الجزائر ایک مسلم ملک ہے۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے اور سوڈان کا شمار بھی مسلم ملکوں میں ہوتا ہے اس کے علاوہ تقریباً تمام مسلم ملکوں میں یہ مرض عام ہے، ہر ملک میں قومی مسائل کے محققین موجود ہیں، دانشور ہیں، مفکر ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں، ان اکابرین کا کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ عوام کو نقصان پہنچانے والے مسائل کی تحقیق کریں اور یہ دیکھیں کہ عوام کو غربت و افلاس میں مبتلا رکھنے والے مسائل اور ذمے دار کون ہیں اور کس طرح عوام کو ان مردار خوروں سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔

اس حوالے سے المیہ یہ تھا کہ غریب عوام کو نہ کرپشن کا احساس تھا نہ یہ احساس تھا کہ غریبوں کی محنت کی کمائی کے اربوں روپے لوٹنے والوں کے خلاف عوام کو کرپشن کے اربوں کھربوں روپے ان کی گرفت سے نکالنے کے لیے انھیں سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا چاہیے۔ الجزائر میں حکمران ٹولے کے خلاف دو ماہ سے احتجاج جاری رہا۔ اس حوالے سے ایک بے حد دلچسپ بات یہ ہے کہ الجزائر میں کرپٹ عناصر کے خلاف اس وقت کارروائی شروع ہوئی جب الجزائر کے آرمی چیف نے کہا تھا کہ ’’انھیں امید ہے کہ کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘

سوڈان میں بھی سابق کرپٹ حکمرانوں کے خلاف عوامی تحریک جاری ہے اور حکمران کرپٹ ٹولے کے خلاف عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ افریقہ کا شمار پسماندہ براعظم میں ہوتا ہے جہاں کے عوام زندگی کی حقیقتوں اور کرپشن کے اثرات سے لاعلم رہے ہیں۔ کرپشن کے ذریعے امیر بننے والے جس اربوں روپے پر قابض ہوجاتے ہیں اس دولت کے مالک عوام ہوتے ہیں، اگر کرپٹ اشرافیہ سے ان کے زیر قبضہ اربوں ڈالر آزاد کرالیے جائیں تو غریب عوام کی زندگی میں تبدیلی آسکتی ہے اور ان کا معیار زندگی بلند ہوسکتا ہے۔

یہاں اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ قومی دولت کے اصل مالک عوام ہی ہوتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے حربوں سے عوام کی دولت پر اشرافیہ قابض ہوجاتی ہے اور بے چارے عوام دو وقت کی روٹی کے محتاج بن جاتے ہیں۔ افریقہ جیسے پسماندہ ترین براعظم کے ملکوں کے عوام کو بھی اب احساس ہو رہا ہے کہ حکمران اور ان کے طبقاتی بھائی ان کی محنت کی کمائی پر قبضہ کرکے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور قومی دولت کے اصل مالک عوام نان جویں سے محتاج ہیں۔ الجزائر اور سوڈان جیسے پسماندہ ملکوں کے عوام بھی سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو ایشیا کے عوام کو بھی احساس ہوگا کہ کرپشن کے ذریعے لوٹی ہوئی اربوں کی دولت کے مالک وہی ہیں اور اپنی کمائی ہوئی دولت کو واپس لینا ان کا حق ہے۔

پاکستان کے عوام کا بھی یہ حق ہے کہ وہ کرپشن اور کرپٹ اشرافیہ کے خلاف الجزائر اور سوڈان کے عوام کے راستے پر چل کر پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ہماری چالاک اشرافیہ نے کرپشن کے ثبوت تک نہیں چھوڑے اور عدلیہ ثبوت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی۔ پاکستان میں جو طاقتیں کرپٹ مافیا کا خاتمہ چاہتی ہیں، وہ کرپٹ مافیا کے حربوں کو ناکام بنائیں تاکہ عوام غربت کے عفریت سے آزاد ہوں۔