جس خبر پر ہم تبصرہ کرنیوالے ہیں،یہ دل دہلا دینے والی ہے،اسے غیر جذباتی ہوکر ملاحظہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گردی کے الزام میں 37افراد کے سرقلم کر دیئے گئے۔ سزا پر عملدرآمد سعودی عرب کے 6 صوبوں میں کیا گیا۔ سزا پانے والے تمام افراد سعودی شہری ہیں۔
ان پر دہشتگرد گروپس بنانے‘ مذہبی منافرت، انتہا پسندی پھیلانے اور دھماکے کرنے اور کرانے کے الزامات تھے۔ کچھ سزا پانے والوں نے سکیورٹی اہلکاروں کو گھات لگا کر قتل کیا۔اس فرمان سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مزید براں جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔37 افراد کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا معمولی اقدام نہیں ہے،یہ لوگ دہشتگردی میں ملوث تھے تو ان پر ترس کھانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔انکے ہاتھوں ہونیوالا دہشتگردی میں ایک ایک قتل اتنی بار انسانیت کا قتل ہے جتنے قتل انکے سر پر ہیں۔سعودی عرب میںیا کہیں بھی اگر دیگرمقاصد کے تحت دہشتگردی کا الزام لگا کر کسی کو سزائے موت سے ہمکنار کردیا جاتا ہے تو یہ بھی ایسا ہی قتل ہے جسے پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔دہشتگردی ہو،ناجائزقتل ہو یا دیگر سنگین جرائم ان کا خاتمہ سخت سزاؤں کا متقاضی ہے۔مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ریاست کی ذمہ داری ہے،ریاست یہ ذمہ داری حکومت کے ذریعے پوری کرتی ہے۔دہشتگردی کی طرح دیگر سنگین جرائم کے قلع قمع کے لئے پوری قوم کا یکجہت اور اداروں کا حکومت کے ہمقدم ہونا ناگزیر ہے۔پاکستان کئی سال بدترین دہشتگردی کی لپیٹ میں رہا ۔پاک افواج کی بے پایاں قربانیوں سے دہشتگردی کا خاتمہ ہورہا ہے۔آج پہلے جیسے ملک پر دہشتگری کے سائے نہیں مگر بدستور دہشتگرد سرگرم ہیں۔وہ گاہے بگاہے چھوٹے بڑے واقعات سے اپنا ناپاک وجود ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسکے ساتھ پاکستان کی مشرقی سرحد تو دہائیوں سے غیر محفوظ تھی،
اس سرحد پر بھارت شرانگیزی کا مسلسل ارتکاب کرتا رہا ہے،اسی کے ایماء پر پاکستان کی مغربی سرحد بھی افغان کٹھ پتلی انظامیہ پاکستان کیلئے ریڈ لائن بناچکی ہے۔پاکستان بھارت سرحد پر بھارت باڑ لگا رہا ہے۔ افغانستان کیساتھ 27سو کلو میٹر بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے پاکستان کہیں باڑ نصب کررہا ہے اور کہیں دیوار کی تعمیر جاری ہے اور یہ دونوں تکمیل کے قریب ہیں۔ایران پاکستان کا کچھ تحفظات کے باوجود بااعتماد دوست اور مسلم پڑوسی ملک ہے۔اب پاک ایران سرحد پر بھی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ایران کی طرف سے گزشتہ دنوں دہشتگرد پاکستان میں داخل ہوکر بیس افراد کو بسوں سے اتار کر قتل کرتے اور فرار ہو جاتے ہیں۔پاکستانی وزیر خارجہ ان کے ایران میں ٹھکانوں کی بات کرتے ہیں۔ایران کی طرف سے تعاون کا یقین تو دلایا جاتاہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کے اندر کیا ریاست میں کوئی ریاست ہے جو پاکستان میں دہشتگردی کیلئے سرگرم ہے؟ وزیراعظم عمران خان اس نازک مرحلے پر ایران گئے۔یہ ان کا ایران کا بروقت دورہ تھا جس سے معاملات بہتری کا رُخ اختیار کررہے ہیں۔انہوں نے ایران کیخلاف پاکستان کی سرزمین استعمال ہونے کی بات کی، دہشتگردی کی طرح کرپشن بھی ایک ناسور ہے۔جس نے پاکستان کی معیشت غارت کردی۔قومی وسائل ملکی ترقی،عوامی خوشحالی اور صحت و تعلیم پر صرف ہونے کے بجائے چند خاندانوں کی تجوریوں جیبوں اور پیٹ میں چلے گئے۔ ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے مگر کچھ لوگوں کے لالچ کی کوئی انتہا نہیں،ان کی نیت اور پیٹ نہیں بھرتاجو قبر کی مٹی ہی سے بھر سکتا ہے۔
عمران خان لوٹے گئے ایک ایک پیسے کی ریکوری کیلئے سرگرداں ہے۔مگر مقابلے میں گہری جڑوں اور چارسو پھیلی ہوئی شاخوں والا مافیا ہے جو ان کو بے بس کرنا چاہتا ہے۔اگر یہ مافیا اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگیا تو پاکستان کبھی سنبھل نہیں سکے گا۔عمران نے قوم کیساتھ بڑے بڑے وعدے کئے وہ انکی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں،انکے پائے استقلال میں ایک بہت بڑی مخاصت کا رویہ اپنائے اپوزشن ،دوسرے رُخ کھڑی بیورو کریسی، عدم تعاون پر آمادہ فوج کے سوا کچھ اداروں اور جھوٹا پراپیگنڈا کرنے والے عناصر کے سرگرم ہونے کے باجود کوئی لرزش نہیں آئی۔اپوزیشن چند مطالبات تسلیم ہونے پر آمادۂ تعاون ہے جس کی بار بار پیشکش بھی کررہی ہے مگر حکومت احتساب کے ایجنڈے سے سر مو ہٹنے کو تیار نہیں۔اپوزیشن کے بڑے لیڈر مستوجب احتساب ہیں ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ کرپشن کے کیسز ختم ہوجائیں۔نیب کا بستر گول ہوجائے۔نیب قوانین بدل جائیں اب کہا جارہا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں کی صورت میں اثاثے رکھنے والے کے بجائے نیب یہ ثابت کرے کہ یہ اثاثے کس طرح بنے۔ہر کیس میں ایسا ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کو حکومت میں آئے آٹھ ماہ ہوئے ہیں جس نے اڑتیس سال کے بگڑے معاملات کو درست کرنا ہے جو مختصر عرصے میں ممکن نہیں۔اس کیلئے چند سال تو دیں۔ مخالفین اس حکومت کی آٹھ ماہ کی کاکردگی کو بھی سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔اس دوار ن کرپشن کا ایک بھی بڑا سکینڈل سامنے نہیں آیا یہی اس حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ ایسا عمران خان ہی کرسکتے ہیں،تبدیلی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔تبدیلی ان کے ہاتھوں نہ ہوسکی تو کبھی نہیں ہوسکتی ۔