counter easy hit

پیپلز پارٹی کے نامور رہنما رانا اکرام ربانی کے تہلکہ خیز انکشافات

لاہور (ویب ڈیسک) ٹرررن ٹرررن“ فون کی گھنٹی بجی، مَیں نے فون اٹھایا، آپریٹر نے کہا سر امریکہ سے کال ہے۔ میری چھوٹی بہن نے روتے ہوئے کہا”بھائی جان بڑا ظلم ہوا مرتضیٰ بھٹو کو شہید کر دیا گیا“، میں نے اس کی پوری بات نہیں سنی اور فون بند کر دیا۔ نامور سیاستدان رانا اکرام ربانی اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ٹی وی آن کیا تو مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کی خبر کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو ننگے پاؤں روتے ہوئے تیزی سے ہسپتال میں داخل ہوتے دکھایا جا رہا تھا، جہاں مرتضیٰ بھٹو کو لے جایا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ساتھ جذباتی وابستگی سے مجھے محسوس ہوا جیسے میری کوئی قیمتی متاع مجھ سے چھین لی گئی ہے۔ میری بیوی بچے میری حالت دیکھ کر مجھے سنبھالنے لگے۔ وقت تو گزر جاتا ہے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی ہو رہا تھا۔ اگلا دن اس سانحہ پر ”ممکنات“ پر بات کرتے گزر گیا۔ پرانے جیالوں کے چہرے پر اداسی نمایاں تھی۔ ایک دوسرے کی طرف آنسو بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، لیکن خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ Winability کے معیار پر آنے والے بھی اس سانحہ پر غمزدہ تھے۔میری ملاقات زندگی میں دو بار مرتضیٰ بھٹو شہید سے ہوئی وہ بھی ہاتھ ملانے کی حد تک ایک دفعہ 70کلفٹن اور دوسری مرتبہ ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں۔ بہرحال وہ قائد عوام شہید کا بیٹا تھا۔ باہمی مشاورت سے طے پایا کہ لاڑکانہ جانا اور گڑھی خدا بخش پہنچنا ممکن نہیں تھا جہاں مرتضی بھٹو شہید کو ذوالفقار علی بھٹو شہید اور شاہ نواز کے پہلو میں دفن کیا گیا تھا۔ اس لئے لاہور میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جائے۔ لاہور کے کارکنوں کے ہمراہ وزرا اور اراکین پنجاب اسمبلی (جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا) بھی شامل ہو سکیں گے۔ مَیں نے اپنے پی آر او سے کہا کہ کوسٹر گاڑیوں کا انتظام کر لیں، علیحدہ علیحدہ گاڑیوں میں جانے کی بجائے اکٹھے چلے جائیں گے۔ لیکن ہماری اس کوشش کے ساتھ ایک کوشش ہم سے علیحدہ اور بھی کی جا رہی تھی۔ملک مشتاق اعوان نے پورے پنجاب کی تنظیموں کو پیغام دیا کہ ”اسلام آباد“ سے حکم ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ ادا نہیں کی جائے گی اور وقت شاہد ہے کہ پورے پنجاب میں کہیں بھی ”حکم عدولی“ نہیں ہوئی، لیکن کارکنان نے انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر شہید کی روح کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی اور لنگر کا اہتمام کیا۔ جب یہ اطلاع جناب ملک مشتاق اعوان تک پہنچی کہ ان کی ناک کے نیچے لاہور کے کارکن اور پنجاب اسمبلی کے اراکین اور وزراء نے ناصر باغ میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کی ”جسارت“ کی ہے تو انہوں نے وزراء اور اراکین سے بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطہ کرکے ”اسلام آباد“ سے آنے والے حکم سے آگاہ کیا۔ میرے ساتھ رابطہ کرنے کی ذمہ داری میاں افضل حیات کو سونپی گئی۔ ان سے میرے ذاتی اور خاندانی مراسم تھے۔ انہوں نے مجھے اس ”حکم“ کے بارے میں بتایا اور ملک مشتاق اعوان کا حوالہ بھی دیا۔ مَیں نے انہیں کہا کہ اس حکم کی حکم عدولی ہو گی اور ہم تو ضرور یہ کریں گے۔ لاہور میں الطاف قریشی سے رابطہ ہوا۔ ان سے بھی پارٹی کے علاوہ اپنے ماموں رانا امجد حسین مرحوم کے حوالے سے ذاتی باہمی احترام کا رشتہ تھا اور اب بھی ہے رہے گا بھی۔ انہوں نے بھی Confirmکیا کہ ہاں ایسا ہی ہوا ہے، لیکن انہوں نے بھی حکم عدولی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چنانچہ اگلے دن کوسٹر گاڑیاں واپس بھیجنا پڑیں۔ میں، چودھری وصی ظفر اور عبدالرحمن کھر (ملک غلام مصطفےٰ کھر کے صاحبزادے) ایک ہی گاڑی میں ناصر باغ پہنچے۔ ناصر باغ کا وہ کونہ جو گورنمنٹ کالج نیو ہوسٹل کے سامنے ہے۔ وہاں ”کچھ“ کارکنان بھی تھے۔ لاہور سے پیپلزپارٹی کے بڑے نام نہیں تھے۔”حکم“ کی تعمیل ہو گئی تھی۔ الطاف قریشی تھے جو آج تک اپنی رائے کا اظہار کھل کر کرتے ہیں۔جنازے کی تین صفیں ہوئیں، سب ایک دوسرے سے گلے مل کر روتے رہے۔ دکھ کا اظہار بھی تھا اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بیٹے کی غائبانہ نماز جنازہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد بھی اپنی جگہ دکھ میں اضافہ کی وجہ تھی۔اسلام آباد سے یہ ”حکم“ کیوں دیا گیا؟ کس نے دیا؟ یہ سوال آج تک مجھے پریشان رکھے ہوئے ہے، بلکہ یہ کہنا چاہوں گا Hauntکرتا ہے اور جب تک کوئی ”خاص دن“ آتا رہے گا، یہ سوال شدت سے ابھرتا ہے۔ اب بھی قائد عوام شہید کی برسی کے موقع پر اس سوال کے جواب کی تلاش اس زیر نظر تحریر کی وجہ بنی۔شہید کی برسی تو گزر گئی سوال اب تک پریشان کر رہا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو شہید کی شہادت اب بھی ایک معمہ ہے۔ امریکی صدر کینیڈی کا قتل قائد ملت لیاقت علی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت، تاریخ کے وہ واقعات ہیں جو ابھی تک جواب طلب ہیں حل طلب ہیں۔ شکوک و شبہات کے پردوں میں چھپا دیئے گئے ہیں، لیکن آج کا سوال صرف مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے حوالے سے ہے۔ کبھی کسی کا ضمیر جاگا تو اسے بھی موت کی نیند سلا دیا گیا۔ یہ واقعہ یا سانحہ جس رات ہوا۔ کس کے حکم پر 70کلفٹن کے راستے کی سٹریٹ لائٹ بند رکھی گئی؟ کس کے حکم پر دائیں بائیں گھر والوں کے رہائشیوں اور گارڈز کو باہر نکلنے سے منع کیا گیا؟ باہر جو بھی ہوا، اس سے لاتعلق رہنے کا کہا گیا۔فائر کس طرف سے ہوا؟ ایسے بہت سے سوال ہیں،جن کے جواب نہیں ملے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، کیا حکومت خود بھی ملوث تھی؟ یا صوبائی حکومت سے بالا کسی کا انفرادی فعل یا اجتماعی سازش تھی؟ شاید ان سوالات کا جواب کبھی نہ مل سکے۔ میری حیثیت بھی یہ سوال کرنے کی نہیں جن کے پاس جواب ہیں اس کے مقابلے میں۔ لیکن میں صرف وہی سوال کروں گا اور اس کا جواب ملک مشتاق اعوان دے سکتے ہیں یا محترمہ ناہید خان،کیونکہ ملک صاحب سے رابطہ بلاواسطہ نہیں ہوتا تھا۔ ان کی حیثیت ہی یہ نہیں تھی۔ ان تک تمام ”ہدایات اور احکامات“ ناہید خان کے ذریعے پہنچتے تھے۔ بڑے سادہ سوالات ہیں، بلکہ ایک ہی سوال ہے۔ مرتضیٰ بھٹو شہید کی غائبانہ نماز جنازہ نہ ادا کرنے کا ”حکم“ کس نے دیا؟آج کی پیپلزپارٹی کو ان واقعات کا علم ہی نہیں ہے۔ یہ بھی ہماری سیاست کا ایک المیہ ہے۔ پیپلزپارٹی،نواز لیگ ہو،تحریک انصاف ہو، بلکہ تمام سیاسی جماعتوں میں جو ”نیت امام دی اوہ ساڈی“ کا ”قانون“ چلتا ہے اور اس پر فخر محسوس کیا جاتا ہے ورنہ؟میرا تو ایک ہی سادہ سا سوال ہے۔ ناہید خان، مشتاق اعوان تو متعلقہ شخصیات ہین، لیکن ان کے علاوہ بھی کوئی ہے جو پورے علم اور یقین کے ساتھ اس کا جواب دے سکتا ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website